ایک ایسے معاشرے میں جہاں اخلاق، ہمدردی اور انسانیت کی قدریں ہماری اجتماعی شناخت شمار ہوتی ہیں، وہاں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس نے دلوں پر گہری چوٹ لگائی ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک خبر نہیں بلکہ احساس و شعور کو جھنجھوڑ دینے والا صدمہ ہے، جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں معصومیت اور تحفظ کے دائرے کہاں کمزور پڑ رہے ہیں۔ سوات کے پرامن علاقے کلاڈھیر میں، تھانہ رحیم آباد کی حدود میں، ایک مسجد جو کہ عبادت گاہ، پناہ گاہ اور روحانی سکون کا مرکز ہوتی ہے، وہاں ایک سات سالہ معصوم بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا المناک واقعہ پیش آیا۔ یہ وہ جرم ہے جسے سن کر ہر انسان شرما جاتا ہے، ہر دل درد سے چیرا جاتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک فرد کے فعل کی داستان ہے بلکہ معاشرے کے اخلاقی زوال کا ایک گہرا ناسور ہے۔

مسجد کی مقدس فضا میں ایسے وحشیانہ فعل نے مقامی آبادی کے دلوں میں زہر گھول دیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ خالق سے راز و نیاز کے لیے جاتے ہیں، جہاں بچے قرآن کی آیات سیکھتے ہیں۔ اس پاکیزہ ماحول میں ایک معصوم بچے کی معصومیت کو تار تار کرنا، اس کے نفسیاتی اور جذباتی وجود پر ناقابل تلافی زخم لگانا، کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے ایک شدید صدمہ ہے۔ یہ جرم صرف ایک بچے کے خلاف نہیں بلکہ پورے معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے خلاف ہے۔خوش قسمتی سے، پولیس نے فوری اور مثالی کارروائی کا مظاہرہ کیا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی تھانہ رحیم آباد کے ایس ایچ او مجیب عالم اور ان کی بہادر پولیس ٹیم نے موقع پر پہنچ کر ملزم واجد علی بن گل رحمان، ساکن اوڈیگرام، کو گرفتار کر لیا۔ یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض کے تئیں چوکس ہیں۔ ان کی اس فوری کارروائی نے عوام کے دلوں میں کچھ سکون پیدا کیا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ ایسے مجرم قانون کی گرفت سے باہر نہیں رہ سکتے.

مقامی آبادی میں اس واقعے نے شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ لوگوں کے چہروں پر افسوس اور آنکھوں میں غم کے آثار صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں عوام نے پولیس کی فوری کارروائی پر انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ تعریف محض رسمی نہیں بلکہ دلوں کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی ہے، جو اس المیے میں ایک امید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ایسے واقعات ہمارے معاشرے کے اخلاقی ڈھانچے پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس معاشرے کی تعمیر کر رہے ہیں۔ کیا ہم اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کر پا رہے ہیں؟ کیا ہماری اجتماعی بے حسی اور خاموشی ایسے مجرموں کو حوصلہ افزائی تو نہیں فراہم کر رہی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ہر فرد اور معاشرے کو مل کر تلاش کرنا ہوگا۔

معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کا جرم کسی بھی مذہب، کسی بھی تہذیب میں قابل قبول نہیں ہے۔ اسلام میں تو معصوم بچوں کے حقوق پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: "اور ظالموں کے راستے پر نہ چلو۔” (سورہ الانعام، آیت: ۱۴۴)۔ یہ آیت ہمیں صاف طور پر بتاتی ہے کہ ظلم و زیادتی کا راستہ اختیار کرنا کیسے حرام ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے ساتھ شفقت و محبت کا جو نمونہ پیش کیا ہے، وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کے حقوق کو نہیں پہچانتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔” (سنن ترمذی)۔ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ معصوم بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی حفاظت کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔

اس واقعے کے بعد ہمیں اپنے گھروں، مدرسوں، مساجد اور معاشرے کے ہر دائرے میں بچوں کی حفاظت کے لیے نئی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھل کر بات کریں، انہیں اچھے اور برے چھونے کے فرق سے آگاہ کریں۔ انہیں یہ باور کرائیں کہ ان کی آواز اٹھانا کوئی شرم کی بات نہیں ہے۔مساجد کے منتظمین اور اماموں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی عبادت گاہوں کی نگرانی کے نظام کو مزید بہتر بنائیں۔ یہ ایسے پاکیزہ مقامات ہیں جنہیں ہر قسم کی بدعنوانی اور برائی سے پاک رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کوئی بھی مشتبہ شخصیت جو بچوں کے قریب جانے کی کوشش کرے، اس پر فوری نظر رکھی جائے اور اگر ضروری ہو تو قانونی کارروائی کی جائے۔تعلیمی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسکولوں میں بچوں کو ان کے حقوق اور تحفظ کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے خصوصی سیشنز کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ بچوں کی نفسیاتی صحت کا خیال رکھنا اور انہیں محفوظ ماحول فراہم کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ضروری ہے کہ مجرم کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ، متاثرہ بچے اور اس کے خاندان کو ہر ممکن نفسیاتی اور قانونی مدد فراہم کی جائے۔ انصاف کا عمل تیز تر ہونا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے۔میڈیا کا کردار بھی اس سلسلے میں نہایت اہم ہے۔ ایسے واقعات کی رپورٹنگ حساسیت کے ساتھ کی جانی چاہیے۔ متاثرہ بچے کی شناخت کو مکمل طور پر محفوظ رکھا جائے تاکہ اسے مزید ذہنی اذیت نہ ہو۔ میڈیا معاشرے میں اس حوالے سے آگاہی پھیلانے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔ہمیں اپنے اندر کے انسان کو جگانا ہوگا۔ ہمیں اپنے اردگرد ہونے والی برائی کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔ خاموشی اور بے حسی کا راستہ چھوڑ کر ہمیں انصاف کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔ ہر معصوم بچہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے ننھے معصوموں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا ہوگا۔ ان کی معصومیت کو محفوظ بنانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

آئیے، ہم سب مل کر عہد کریں کہ ایسے تمام عوامل کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے معاشرے میں اس قسم کے گھناؤنے جرائم کو جنم دیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو محفوظ ماحول، اچھی تعلیم اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے آراستہ کر کے ایک بہتر مستقع کی تعمیر کر سکتے ہیں۔یہ واقعہ ایک المیہ ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ ہمارے لیے ایک جاگنے والی کال بھی ہے۔ ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس سے سبق سیکھ کر اپنے معاشرے کو مضبوط اور محفوظ بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔آخر میں، ہم سب مل کر اس معصوم بچے اور اس کے خاندان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس صدمے سے نکالنے کے لیے صبر اور طاقت عطا فرمائے۔ ہماری دعا ہے کہ ایسے واقعات پھر کبھی نہ ہوں اور ہمارا معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بنے۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے