یہ ملک صدیوں کی کہانیوں کا وارث ہے۔ یہاں پہاڑ اپنے سینوں میں تاریخیں دبا کر کھڑے ہیں، دریا زمانوں کی گردش کو اپنی لہروں میں دہراتے ہیں، اور زمین کی مٹی میں محبت، وفاداری اور غیرت کی خوشبو رچی ہوئی ہے۔ مگر اسی دھرتی پر انسانوں کے قدم کچھ ایسے بھٹکے ہوئے ہیں کہ منزل سامنے ہونے کے باوجود راستہ دھندلا سا محسوس ہوتا ہے۔ خواہشیں بلند ہیں، دعائیں بھی سنجیدہ ہیں، مگر عمل تھکا ہوا اور بکھرا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم مسلسل بھاگ رہے ہیں مگر یہ بھاگ دوڑ ہمیں اپنی جگہ پر ہی گھما رہی ہے۔ہماری شادیوں میں مہندی، ڈھول، گانا، رقص، لباس سب کچھ ہندوستانی رنگ میں ڈوبا ہوتا ہے۔ آخر میں رخصتی کے وقت قرآن کا سایہ، جیسے ایک لمبا ڈرامہ ایک آدھ لمحے کی روحانیت سے پاک ہو جائے۔ مذہب اور روایت دونوں کی اپنی جگہ ہے، مگر دکھاوے کی تہیں کبھی بھی دل کی روشنی نہیں جگا سکتیں۔

ہم مذہبی ایام چاند دیکھ کر مناتے ہیں، عید کے دن گھروں میں نور اترتا ہے۔ مگر سال ِ نو کی رات چمکتی روشنیوں اور شور میں ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی شناخت کے توازن میں کہیں الجھ گئے ہیں۔ یہ الجھن فہم کی نہیں، خود اعتمادی کی ہے کہ ہم اپنے ہونے پر فخر کرنا بھول گئے ہیں۔مساجد کے بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس شامل ہوتی ہے۔ عبادت کی جگہ، اللہ کے گھر میں دنیا کی وہ قیمت بھی جو وہاں کبھی استعمال نہیں ہوتی۔ یہ صرف ایک رقم نہیں، یہ احساس کے زخمی ہونے کی صورت ہے۔ اور اسی کے ساتھ ہم اپنے آپ کو اسلامی ریاست کہتے ہیں۔ اسلامی ہونا صرف نام نہیں، طرزِ عدل اور طرزِ رحم کا نام ہے۔بنکوں کی فولادی تجوریوں میں نوٹوں کے انبار محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ اربوں روپے کی حفاظت کا نظام بنایا جاتا ہے۔ کیمرے، سنسر، الارم، فولادی دروازے سب موجود ہوتے ہیں۔ مگر باہر کھڑا محافظ، وہ جو اپنی جان کی قیمت پر اس دولت کی حفاظت کرتا ہے، اسے پندرہ ہزار تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہ صرف ناانصافی نہیں، یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہماری سوچ کا چہرہ نظر آتا ہے۔ یہاں دولت کی قیمت بہت ہے، مگر انسان کی قیمت خطرناک حد تک کم۔

ہماری سڑکیں بنائی جاتی ہیں نہایت دعووں کے ساتھ، افتتاحی تصاویر لگائی جاتی ہیں، ربن کٹتا ہے، تالیاں بجتی ہیں۔ پھر کچھ ہی دن بعد وہی سڑک دوبارہ کھود دی جاتی ہے تاکہ گیس یا پانی کی لائنیں ڈالی جا سکیں۔ یہ بار بار مرمتی عمل سڑکوں کو نہیں، نظام کی عقل کو بے نقاب کرتا ہے۔ اگر منصوبہ بندی مکمل ہو تو زمین ایک ہی بار کاٹتی ہے۔ مگر یہاں لگتا ہے جیسے ہر کام آدھا سوچ کر، آدھا بنا کر اور باقی مقدر پر چھوڑ کر کیا جاتا ہے۔ہمارے کارخانوں، دکانوں، گھروں اور گلیوں میں سلنڈروں اور تاروں پر ہنگامی ہدایات انگریزی میں لکھی جاتی ہیں، جبکہ انہیں استعمال کرنے والا عام مزدور ان الفاظ کی صورت تک نہیں پہچانتا۔ یہ رسم نہیں، یہ سوچ کی شکست ہے۔ یہ اس اجتماعی غفلت کا نقشہ ہے جس میں ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلہ تعلیم کا نہیں بلکہ صرف تحریر کا ہے، حالانکہ اصل مسئلہ فاصلہ ہے: فیصلہ کرنے والوں اور کام کرنے والوں کے درمیان۔

حادثے ہوتے ہیں، جانیں جاتی ہیں، گھروں کی روشنی بجھ جاتی ہے۔ پھر ریاست معاوضہ دیتی ہے جیسے جان کی قیمت مقرر ہو۔ مگر حادثات کے اسباب پر توجہ نہیں دی جاتی۔ سڑکیں بہتر نہیں ہوتیں، احتیاطی اصول لاگو نہیں ہوتے، ذمہ داروں سے سوال نہیں ہوتا۔ یہ ایسا نظام ہے جو مرنے کے بعد روتا ہے، مگر مرنے سے پہلے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ریاست قرضوں کے سہارے کھڑی ہے، اور عوام کو خطاب کیا جاتا ہے کہ بچت کرو، قناعت کرو، سادگی اپناؤ۔ مگر اشرافیہ کی محفلیں، پروٹوکول، وفود، گاڑیاں، نہ ختم ہونے والے خرچے کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اس تضاد میں قوم کا اعتماد ختم ہوتا ہے، اور اعتماد ہی وہ لکیر ہے جسے مٹا دیا جائے تو قوم مٹی میں ڈھل جاتی ہے۔

کھلاڑیوں اور کرسیوں پر بیٹھے افراد کو لاکھوں روپے ملتے ہیں، بغیر کارکردگی، بغیر ثمر کے، اور دوسری طرف ایک طالب علم اپنی کتابوں اور فیسوں کے درمیان زندگی کا سانس بچانے کی جنگ لڑتا ہے۔ قومیں اُس وقت گرتی ہیں جب ان کے اصل سرمایہ دار یعنی نوجوان بے وقعت ہو جائیں۔ہم ووٹ ان لوگوں کو دیتے ہیں جن کے ماضی، کردار اور نیت سب بے نقاب ہوتی ہیں۔ پھر زبان سے خواہش نکلتی ہے کہ کاش حکمرانی عمر بن خطاب جیسی ہو۔ یہ آرزو نہیں، تضاد ہے۔ ایک ایسا تضاد جس نے ہمیں اندر سے توڑ دیا ہے۔عوام تھوڑی آمدنی میں بجلی اور ٹیکس ادا کرتے ہیں، جبکہ اشرافیہ ہزاروں یونٹ بجلی مفت حاصل کرتی ہے۔ عدل کا یہ زخم محض معاشی نہیں، اخلاقی ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں مریض بستر کی تلاش میں دم توڑ دیتے ہیں، اور حکمران معمولی علاج کے لئے لندن جاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دل خود ہی سوال پوچھتا ہے کہ کیا یہ وطن محض رہنے کی جگہ ہے، جینے کی نہیں؟ہم سب دوسروں پر انگلی اٹھاتے ہیں مگر اندر دیکھنے سے گھبراتے ہیں۔ اپنی ذات کو بدلنا سب سے مشکل کام ہے۔ مگر وہی اصل بنیاد ہے۔

تعلیمی اداروں میں ڈگریاں ملتی ہیں، مگر شعور کی کرنیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ مسجدیں عدل اور اخلاق کا پیغام دیتی ہیں، مگر دلوں میں اس پیغام کا گزر کم دکھائی دیتا ہے۔ عدالتیں فیصلے سناتی ہیں، مگر انصاف کی تصویر دھندلی رہتی ہے۔یہ قصہ صرف حکمرانوں کا نہیں، یہ ہم سب کا ہے۔ قومیں لیڈروں کے ہاتھوں نہیں، اپنی اجتماعی عادات کے ہاتھوں بنتی اور بگڑتی ہیں۔یہ ملک اپنی مٹی میں طاقت رکھتا ہے۔ یہاں محنت ہے، جذبہ ہے، غیرت ہے۔ صرف سمت کی کمی ہے۔ اور سمت تب ملتی ہے جب قوم خود کو آئینے میں دیکھنے کی ہمت کرے۔تبدیلی کسی نعرے سے نہیں، دل کے اندر سے اٹھنے والے عزم سے شروع ہوتی ہے۔ انقلاب خاموش ہوتا ہے، مگر اس کی گونج پوری تاریخ کو بدل دیتی ہے۔

یہ ملک ٹوٹا ہوا نہیں ، تھکا ہوا ہے۔ تھکاوٹ آرام، امید اور سچے قدموں سے دور ہو جاتی ہے۔ یہ سوال کبھی ٹلتا نہیں، صرف انتظار کرتا ہے۔ کہانی ابھی ختم نہیں۔ پاکستان ابھی بھی ہم سے ہے، اور ہم سے ہی بدلے گا۔ اگر ہم بدلنے کا فیصلہ کر لیں۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے