انسان کی اصل پہچان اس وقت سامنے آتی ہے جب اسے اختیار یا طاقت ملتی ہے۔ عام حالات میں ہر کوئی نرم لہجے میں بات کرتا ہے، اخلاق اور شرافت کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن جیسے ہی کسی کے ہاتھ میں تھوڑا سا عہدہ آتا ہے، اس کے لہجے میں اکڑ، باتوں میں تلخی، اور چہرے پر غرور آ جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ انسان دراصل اندر سے کتنا چھوٹا یا بڑا ہے۔

مجھے آج ایک پرانا واقعہ یاد آ رہا ہے، جو میں نے یوکے میں اپنی ڈیوٹی کے دوران دیکھا۔ وہاں ایک ایشیائی بندہ تھا، جو کئی سالوں سے نرس کے طور پر کام کر رہا تھا۔ تجربہ کار بھی تھا، بااثر بھی، مگر اس کی عادت تھی ہر کسی کی برائی کرنا۔ اس کے پاس بیٹھ کر کبھی کسی کے لیے خیر کی بات سننے کو نہیں ملتی تھی۔ اس کے لیے دنیا میں کوئی اچھا نہیں تھا، سب غلط، سب ناقص۔میں اکثر اس کے ساتھ ڈیوٹی کرتا تھا۔ شروع میں لگا کہ بس مزاج ایسا ہے، مگر بعد میں محسوس ہوا کہ یہ مزاج نہیں بلکہ زہر ہے, ایسا زہر جو آہستہ آہستہ کردار کو کھا جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد ہوم کی ڈیپٹی منیجر آف سِک ہو گئی، اور انتظامیہ نے عارضی طور پر اسی بندے کو ایکٹنگ منیجر بنا دیا۔

پھر جو ہوا، وہ کسی سبق سے کم نہیں تھا۔ وہ بندہ جس کے چہرے پر پہلے مسکراہٹ ہوتی تھی، اب غرور کا سایہ چھا گیا۔ وہ ہر یونٹ میں جا کر عملے کو ڈانٹتا، بات بات پر غلطیاں نکالتا، چھوٹی بات کو بڑا مسئلہ بنا دیتا۔ خاص طور پر اپنے جیسے ایشیائی اسٹاف کے ساتھ اس کا رویہ بدل گیا۔ جن کے ساتھ کل تک ہنسی مذاق کرتا تھا، آج ان پر حکم چلا رہا تھا۔وقت گزرتا گیا اور ایک دن وہی انگریز ڈیپٹی منیجر واپس آ گئی۔ قانون کے لحاظ سے وہ اپنی پوزیشن پر بحال ہو گئی، لیکن انتظامی طور پر چند دنوں تک وہ اسی ایشیائی ایکٹنگ منیجر کے سپروژن میں رہی۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں اس بندے کے اصل کردار کا پردہ مکمل طور پر فاش ہو گیا۔

اس نے اپنی ڈیپٹی منیجر کو نیچا دکھانے کے لیے رپورٹس میں غلط باتیں لکھنا شروع کر دیں۔ وہ اس کے کام پر سوال اٹھاتا، معمولی باتوں کو بڑا بنا دیتا۔ مقصد صرف ایک تھا، اپنے عہدے کا رعب جمانا۔ مگر اس نے بھول کیا کہ عہدہ وقتی ہوتا ہے، کردار مستقل۔جب ڈیپٹی منیجر نے اصل صورتحال سمجھ لی تو اس نے ہوم منیجر کے ساتھ مل کر تمام ثبوت پیش کیے۔ تحقیقات ہوئیں، اور آخرکار وہی بندہ جس نے دوسروں کی زندگی مشکل بنائی تھی، خود اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اسے کہا گیا کہ یا تو استعفیٰ دے دے یا اس کا کیس نرسنگ کونسل کو رپورٹ کیا جائے۔ آخر وہ خاموشی سے استعفیٰ دے کر چلا گیا۔

یہ واقعہ میرے لیے ایک آئینہ بن گیا۔ کیونکہ یہ کہانی صرف یوکے کی نہیں، بلکہ پاکستان کے ہر دفتر، ہر محکمے اور ہر ادارے کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہی المیہ ہے، جو عہدے پر بیٹھتا ہے، وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے۔پاکستان میں سینئرٹی کا مطلب تجربہ نہیں، بلکہ بالادستی سمجھ لیا گیا ہے۔ سینئر بننے کا مطلب ہے جونیئر کو دبانا، اس پر حکم چلانا، اور اسے احساس دلانا کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ عہدے پر بیٹھ کر رہنمائی نہیں دیتے، بلکہ نیچا دکھانے کو ہی اختیار کا استعمال سمجھتے ہیں۔ہمارے دفاتر، اسپتالوں، سرکاری محکموں میں ایسے بے شمار منیجرز، آفیسرز اور سینئر موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر نظام نہیں چل سکتا۔ وہ جونیئر عملے کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کی ہمت توڑ دیتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی وہ بھی جونیئر تھے، اور کسی نے انہیں سکھایا تھا۔

یہ واقعہ میرے لیے ایک آئینہ بن گیا۔ کیونکہ یہ کہانی صرف یوکے کی نہیں، بلکہ پاکستان کے ہر دفتر، ہر محکمے اور ہر ادارے کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہی المیہ ہے، جو عہدے پر بیٹھتا ہے، وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے۔

پاکستان میں سینئرٹی کا مطلب تجربہ نہیں، بلکہ بالادستی سمجھ لیا گیا ہے۔ سینئر بننے کا مطلب ہے جونیئر کو دبانا، اس پر حکم چلانا، اور اسے احساس دلانا کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ عہدے پر بیٹھ کر رہنمائی نہیں دیتے، بلکہ نیچا دکھانے کو ہی اختیار کا استعمال سمجھتے ہیں۔

ہمارے دفاتر، اسپتالوں، سرکاری محکموں میں ایسے بے شمار منیجرز، آفیسرز اور سینئر موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر نظام نہیں چل سکتا۔ وہ جونیئر عملے کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کی ہمت توڑ دیتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی وہ بھی جونیئر تھے، اور کسی نے انہیں سکھایا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ادارے مضبوط نہیں ہو پاتے۔ کیونکہ ہمارے سینئرز رہنمائی نہیں کرتے، حکم چلاتے ہیں۔ وہ میرٹ کو نہیں، سفارش کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ٹیم ورک کو نہیں، چاپلوسی کو کامیابی کی کنجی سمجھتے ہیں۔ اور جب ادارے کے سربراہ خود اخلاق سے خالی ہوں، تو نیچے والے کہاں جائیں؟ایسا ہی حال سیاست، تعلیم، صحت، حتیٰ کہ میڈیا میں بھی ہے۔ عہدہ ملتے ہی لوگوں کے لہجے بدل جاتے ہیں۔ ان کے رویے بدل جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ کسی کے محتاج نہیں۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، جتنا اونچا مقام، اتنی بڑی ذمہ داری۔

عہدہ کبھی عزت نہیں دیتا، بلکہ امتحان دیتا ہے۔ اگر تم نے انصاف کیا تو عزت خود آئے گی، اور اگر تم نے ظلم کیا تو وہی عہدہ تمہیں ذلت دے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے حکمران اپنے غرور کے باعث مٹی میں مل گئے، مگر ایک عام مزدور اپنی ایمانداری کی وجہ سے آج بھی زندہ مثال بنا ہوا ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”اور زمین میں تکبر کے ساتھ نہ چلو، بے شک اللہ تکبر کرنے والوں اور فخر جتانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔” (سورۃ لقمان – آیت 18)اور حضور ﷺ نے فرمایا:”جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔” (صحیح مسلم)

یہ دونوں تعلیمات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ انسان کی اصل بلندی اس کی عاجزی میں ہے، نہ کہ اس کے عہدے میں۔ عہدہ ایک دن چھن جاتا ہے، مگر کردار ہمیشہ باقی رہتا ہے۔آج اگر پاکستان کے ہر سینئر، ہر افسر، ہر منیجر یہ سوچ لے کہ اس کا عہدہ خدمت کے لیے ہے، حکم چلانے کے لیے نہیں، تو یقین مانیں ہمارا نظام بدل جائے۔ ہمارے ادارے ترقی کریں، جونیئر اعتماد کے ساتھ کام کریں، اور قوم کے اندر عدل اور احترام کی فضا قائم ہو جائے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم عہدے کو خدمت کا موقع نہیں سمجھتے، بلکہ اپنی انا کا تاج سمجھ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ترقی نہیں کر رہے، بلکہ زوال کی طرف جا رہے ہیں۔

یہ دنیا عہدوں سے نہیں، کردار سے پہچانی جاتی ہے۔ اور جو انسان عہدہ پا کر انسانیت کھو دیتا ہے، وہ اصل میں سب سے بڑا محروم ہے۔آج بھی جب میں اس واقعے کو یاد کرتا ہوں تو دل یہی کہتا ہے، عہدہ اگر دل میں ہو تو انسان بڑا ہوتا ہے، اور اگر سر پر چڑھ جائے تو انسان چھوٹا ہو جاتا ہے۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے