یہ تحریر میں دل کی انتہائی گہرائیوں سے لکھ رہا ہوں، اور ہر لفظ لکھتے ہوئے دل جیسے کسی انجانے بوجھ سے دبا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ہماری کولیگ مریم نعیم صرف اکتالیس برس کی عمر میں ایک طویل اور صبر آزما بیماری کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ یہ عمر وہ نہیں جسے رخصتی کے لیے سمجھا جائے, یہ تو زندگی کے عروج کے سال ہوتے ہیں، لیکن اللہ کی تقدیر کے سامنے انسان ہمیشہ بے بس رہتا ہے۔

بینک میں ان کا سفر سترہ سال پر محیط تھا، مگر اس عرصے میں انہوں نے جتنے دلوں کو چھوا، جتنے لوگوں کو سہارا دیا اور جتنا ماحول کو بہتر بنایا، وہ الفاظ میں بیان ہونا ممکن نہیں۔ ان کے جانے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ بعض لوگ صرف اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے، بلکہ اپنے وجود سے اداروں کو ایک خاندان کی شکل دے دیتے ہیں۔ ان کا مسکرا کر مشکل کو آسان بنا دینا، تنازع کو محبت سے ختم کر دینا، اور ہر فرد کو عزت دینا، ان کی شخصیت کا سب سے خوبصورت حصہ تھا۔

میں نے Lloyd’s Bank میں گزشتہ دس برسوں کے دوران بے شمار چہروں کو آتے جاتے دیکھا، لیکن ان کا چہرہ اور ان کی شخصیت ہمیشہ ایک الگ روشنی کے ساتھ ابھرتی رہی۔ ان کی وقار بھری موجودگی، خاموشی میں چھپی محبت، اور انسانیت کا یہ انداز کسی عام دن کی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ کبھی کسی پر بوجھ نہیں بنتی تھیں، نہ اپنی تکلیف یا مشکلات کو ظاہر ہونے دیتیں، بلکہ ہر لمحے اپنے اندر ایک مضبوط حوصلے اور سکون کا پیغام لیے رہتی تھیں۔ یہی صفت ان کی شخصیت کو نہ صرف بلند کرتی تھی بلکہ ہر کسی کے دل میں ان کے لیے ایک خاص مقام بھی پیدا کر دیتی تھی۔ ان کی یہ خودداری، نرمی اور خلوص مل کر ایک ایسی شخصیت تخلیق کرتے تھے جو صرف دیکھی نہیں جا سکتی، بلکہ محسوس کی جاتی تھی، اور ان کے ساتھ ہر چھوٹا یا بڑا لمحہ ایک یادگار تجربے میں بدل جاتا تھا۔

لیڈز Pudsey Office میں ان کے ساتھ گزارے گئے لمحات آج بھی میرے ذہن میں زندہ تصویروں کی طرح محفوظ ہیں۔ ان کی ہنسی، حاضر جوابی، نرم لہجہ اور ہر بات میں چھپی محبت آج بھی میرے دل میں گونجتی ہے۔ وہ بیماری اور تکلیف میں ہونے کے باوجود دوسروں کے لیے ہمیشہ سہارا بنتی تھی، چاہے وہ کسی کے حوصلے کی صورت ہو، کسی کے دن کی مسکراہٹ، کسی کی خاموشی میں شریک ہونا یا بس دو لفظ محبت کے کہہ دینا۔ ان کی یہ مہربانی اور شفقت نہ صرف ان کی عظمت کی اصل دلیل تھی بلکہ یہ ان کے ساتھ گزارے ہر لمحے کو ایک قیمتی یاد میں بدل دیتی تھی، جو آج بھی دل کی گہرائیوں میں روشن چراغ کی طرح جلتی ہے۔

زندگی کے مشکل ترین مرحلے، جیسے گردے کی پیوندکاری، انہوں نے ایسی ہمت سے گزارا کہ دیکھنے والا بھی حیران رہ جاتا تھا۔ عام لوگ ان حالات میں اپنی زندگی سے تھک جاتے ہیں، مگر وہ نہیں تھکى۔ ان کی ہمت ان کی پہچان تھی۔ وہ اس آزمائش کو بھی ایک سبق، ایک تجربہ اور ایک روشنی میں بدل کر دوسروں کے لیے امید کا ذریعہ بن گئی تھی۔ ان کا یہ کہنا بہت معنی رکھتا تھا کہ بیماری انسان کو کمزور نہیں کرتی، بلکہ صبر اور ہمت انسان کو مضبوط کرتی ہے۔ ان کے اندر جو روشنی تھی، وہ اندھیروں میں بھی راستہ دکھا دیتی تھی۔

قرآنِ کریم کی یہ آیت مجھے ہمیشہ ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے:
"ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے”
یہ حقیقت کتنی گہری ہے، اور ان کی زندگی کی جدوجہد اس آیت کا جیتا جاگتا ثبوت تھی، آزمائشیں آئیں، مگر وہ کبھی نہ ٹوٹیں۔

اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔”
اگر اس حدیث کا کوئی عملی نمونہ میں نے قریب سے دیکھا ہے تو وہ یہی تھی۔ ان کا اخلاق، ان کا نرم رویہ، اور ان کی مسکراہٹ ہی ان کی خوبصورتی تھی۔

ان کی طویل بیماری نے انہیں ضرور تھکا دیا تھا، مگر انہوں نے کبھی دنیا کو اپنی کمزوری دکھائی نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ بعد میں ٹیم کا م بنے، وہ شاید انہیں اتنا قریب سے نہ جان سکے۔ مگر جنہوں نے ان کے ساتھ کام کیا، وہ جانتے ہیں کہ وہ کتنی مضبوط، کتنی باہمت اور کتنی نرم دل تھی۔ ان کی وفات نے پوری ٹیم میں ایک ایسی خاموشی چھوڑ دی ہے جو چاہ کر بھی بیان نہیں کی جا سکتی۔

انتظامیہ اور پوری ٹیم کی طرف سے ان کے اہل خانہ کے لیے تعزیتی پیغام بھیجا گیا۔ نہایت دکھ کے ساتھ انہیں سپردِ خاک کیا گیا۔ وہ لمحہ یقیناً ان کے اہلِ خانہ اور ان سب کے لیے بہت بھاری تھا جنہوں نے انہیں چاہا، سراہا اور جانا۔ کسی ایسے شخص کو رخصت کرنا جو دلوں میں محبت چھوڑ کر جائے، کبھی آسان نہیں ہوتا۔

ان کے ساتھ میری آخری گفتگو دل کے اندر ایک چراغ کی طرح جلتی رہتی ہے۔ اس دن میں پاکستان بونیر پیر بابا کے لیے چندہ اکٹھا کر رہا تھا۔ وہ خود تکلیف میں ہونے کے باوجود ایسی محبت اور اخلاص کے ساتھ تعاون کر گئی کہ میرے دل میں ہمیشہ کے لیے ان کا احترام کئی گنا بڑھ گیا۔ وہ بغیر کسی دکھاوے کے مدد کرتی تھی، بغیر کسی کے دیکھنے کے، بغیر کسی تعریف کے لالچ کے، صرف اس نیت سے کہ اگر کسی کا بھلا ہو جائے تو یہی ان کے لیے کافی ہے۔

ان کی نمازِ جنازہ ادا کرتے ہوئے کئی دل ان کے لیے دعا کرتے ہوئے کانپ رہے تھے۔ یہ منظر اس بات کا ثبوت تھا کہ انسانیت کے رشتے دفتر کی حدود سے باہر ہوتے ہیں۔ کئی لوگ جو برسوں سے ان کے ساتھ نہیں ملے تھے، وہ بھی خاموشی سے ان کے لیے دعا کرنے والے ہجوم کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ ایسی محبت صرف انہیں ملتی ہے جو دوسروں کے دلوں میں رہنے کا ہنر جانتے ہوں۔

آج جب میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو ایک ہی دعا دل سے نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کی نرمی، ان کے ظرف، ان کے صبر اور ان کی نیکیوں کے بدلے انہیں ایسا مقام عطا فرمائے جہاں نہ کوئی درد ہو نہ کوئی آزمائش صرف سکون، رحمت اور اللہ کی قربت ہو۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے درجات بلند کرے اور ان کے اہل خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے