
ایک انسان ایک بلند عمارت کی چھت کے خطرناک کنارے پر کھڑا تھا، اس کے قدم لرز رہے تھے اور اس کی آنکھوں میں وہ خاموش ہنگامہ موجود تھا جو لفظوں سے بیان نہیں ہو سکتا، جیسے زندگی کی مسلسل تھکن اور نہ ختم ہونے والی آزمائشوں نے اسے اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہو جہاں امید کا چراغ بجھتا ہوا محسوس ہو۔شہر کی گہما گہمی میں لوگ اکثر ایسے مناظر کو محض اتفاق سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، مگر اس دن وہاں ایسے انسان موجود تھے جنہوں نے اس لمحے کو ایک تماشہ بننے سے روک لیا، انہوں نے وقت اور رفتار کے دھارے کو تھام لیا اور اسے انسانیت کے اعلیٰ ترین امتحان میں بدل دیا۔
یہ لوگ نہ ایک دوسرے کے جاننے والے تھے اور نہ اس شخص سے کسی رشتے میں جڑے ہوئے تھے، مگر دل کی وہ آواز جو دکھ کو پہچانتی ہے، تکلیف کو سنتی ہے اور انسانیت کو جگاتی ہے، انہوں نے اسی آواز پر لبیک کہا اور آگے بڑھے۔ایک شخص نہایت نرمی اور احتیاط کے ساتھ اس کے قریب آیا، جیسے کسی نازک دل کے پاس جاتے وقت سانسوں کو بھی دھیمی رفتار اختیار کرنا پڑتی ہے، اس نے ہاتھ اس کے سینے پر رکھا تاکہ وہ پیچھے کی خطرناک سمت میں نہ جھک جائے، اور یہ ہاتھ صرف روکنے کے لیے نہیں بلکہ زندگی کی طرف واپس بلانے کے لیے تھا۔دوسرے شخص نے آگے بڑھ کر اپنے بازو اس کے کندھوں کے گرد لپیٹ دیے، جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ اب تمہیں یہ جنگ اکیلے نہیں لڑنی ہوگی، ہم تمہاری سانسوں کے ساتھ ہیں، ہم تمہاری کمزوری کے لمحے میں تمہیں سہارا دینے کے لیے یہاں کھڑے ہیں۔ایک اور شخص نے اس کے پاؤں مضبوطی سے پکڑ لیے تاکہ اگر اس کا ذہن ہار ماننے لگے تو بھی اس کا جسم زندگی کے ساتھ جڑا رہے، یہ گرفتیں صرف جسمانی نہیں تھیں بلکہ دل کے اندر امید کی ٹوٹی ہوئی ڈوری کو مضبوط کرنے والی تھیں۔
وہ لمحہ کسی لیکچر، کسی نصیحت یا کسی بڑے فلسفے کا محتاج نہیں تھا، وہاں ضرورت محض ایک خاموش موجودگی کی تھی، ایک دھڑکتے دل کی تھی، ایک انسانی لمس کی تھی جو لفظوں کے بغیر زندگی لوٹا دیتا ہے۔وہ شخص آنسوؤں میں ڈوبا ہوا لرز رہا تھا، اس کی آنکھوں میں سالوں کے دکھ، ناکامیوں کی گہرائی اور چپ چاپ سہی جانے والی تھکن کی پوری کہانی لپٹی ہوئی تھی، شاید اسے لگا تھا کہ اب کوئی نہیں جو اسے سن سکے، مگر ان ہاتھوں نے اسے بتایا کہ وہ ابھی بھی اہم ہے۔
ہم اکثر کہتے ہیں کہ دنیا خود غرض ہے، مگر ایسے مناظر ثابت کرتے ہیں کہ انسان کے اندر روشنی ابھی زندہ ہے، وہ محض دب جاتی ہے، ختم نہیں ہوتی، اور جب کسی کی چیخ خاموشی میں بدل جائے تو یہ روشنی خود بخود جاگ اٹھتی ہے۔انسان کے دل میں محبت کا بیج پیدائش سے رکھا جاتا ہے، اسے کوئی کتاب نہیں سکھاتی، کوئی استاد نہیں پڑھاتا، یہ ہمارے وجود کی جڑ میں ہے اور وہ اس وقت پھوٹتا ہے جب کسی دوسرے کو گرنے سے بچانا ہو۔لوگوں کے چہروں پر خوش مزاجی چھپی ہو سکتی ہے، مگر دل کی تھکن خاموش رہ کر بھی چیختی ہے، اور وہ چیخ صرف وہی دل سن سکتا ہے جس میں ابھی انسانیت باقی ہو۔
ہم مصروف زمانے کے لوگ ہیں، ذمہ داریوں، روزگار اور فکر کے چکروں میں گھومتے رہتے ہیں، لیکن جب کوئی انسان کسی دوسرے کے لیے اپنا وقت، اپنا جسمانی زور اور اپنی پوری توجہ وقف کر دے، تو یہی وہ لمحہ ہے جب انسانیت اپنی اصل صورت میں جلوہ دکھاتی ہے۔”اور ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی اور پرہیزگاری میں تعاون کرو۔”(سورۃ المائدہ، آیت 2)یہ آیت صرف مسجد کے کسی گوشے میں پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ زندگی کے ہر اس مقام کے لیے ہے جہاں انسان کا قدم ڈگمگا جائے، جہاں امید کمزور ہو جائے، جہاں دل بکھرنے لگے، وہاں اللہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سہارا دینے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔”مومن آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بے چینی اور تکلیف محسوس کرتا ہے۔”(صحیح بخاری، حدیث 6011)
یہ جذبہ اسی دن ان اجنبیوں کے اندر زندہ تھا، انہوں نے اس شخص کو نہیں جانا تھا، اس کا ماضی نہیں دیکھا تھا، اس کی غلطیاں نہیں گنی تھیں، انہوں نے صرف درد دیکھا اور بے اختیار اس کی طرف بڑھ گئے، اور یہی ایمان کی سچائی ہے۔انسانیت کا اصل حسن یہی ہے کہ وہ سوال نہیں کرتی، فیصلہ نہیں سناتی، شرط نہیں رکھتی، وہ بس گرتے ہوئے کو تھام لیتی ہے، اور یہی تھامنا کسی کی پوری زندگی بدل سکتا ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو لوگ دوسروں کو مضبوط رکھتے رہتے ہیں، وہ بھی کسی دن تھک سکتے ہیں، اور اس دن اگر انہیں ایک ہاتھ، ایک جملہ، ایک لمس یا ایک موجودگی مل جائے تو وہ بچ جاتے ہیں۔ہر انسان کے چہرے کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے، ہر خاموشی کے اندر ایک پکار ہوتی ہے، اور ہر بکھرے لفظ کے اندر مدد کی درخواست چھپی ہوتی ہے، ہمیں صرف سننے کی ضرورت ہے۔
دنیا مقابلے کی جگہ نہیں، یہ سہارا دینے کی جگہ ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں ہم ایک دوسرے کی زندگیوں کو تھامتے ہیں، چاہے لمحہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔وہ لوگ جو اس شخص کو زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے کھڑے تھے، وہ کوئی مشہور شخصیت نہیں تھے، وہ عام انسان تھے، مگر ان کے دل میں ایسی عظمت تھی جو کسی بادشاہت سے زیادہ بلند ہوتی ہے۔ہم اس دنیا میں صرف اپنے لیے نہیں آئے، ہم ایک دوسرے کے لیے آئے ہیں، ایک دوسرے کو گرنے سے روکنے کے لیے، ایک دوسرے کی سانسوں کو بچھڑنے سے بچانے کے لیے۔اور جب کوئی تھک جائے، ٹوٹ جائے، یا ہار ماننے لگے، ہمیں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنا چاہیے:
تم اکیلے نہیں۔ ہم یہاں ہیں۔ اور ہم تمہیں گرنے نہیں دیں گے۔کیونکہ جب ہم ایسا کرتے ہیں، تو صرف ایک انسان نہیں بچتا، بلکہ پوری انسانیت زندہ رہتی ہے۔
![]()