


ہمیں صرف ڈاکٹر اور انجنیئر نہیں، اچھے انسان چاہیے”, ہیڈ ماسٹر سبحان اللہ
کبھی ہم بھی سگریٹ نوشی کیا کرتے تھے۔ گولڈ لیف کی روزانہ ایک یا دو ڈبیاں پھونک دینا معمول تھا۔ ایک روز شیشے کے سامنے کھڑے ہوئے اچانک دل میں خیال آیا کہ آخر اس کا فائدہ کیا ہے؟ دانت صاف کرتے ہوئے انہی سوچوں میں گم تھا کہ کھانسی نے گھیر لیا۔ سوچا، ایک طرف صحت کا نقصان اور دوسری طرف مہینے کے سات، آٹھ ہزار روپے کا ضیاع… اسی لمحے فیصلہ کیا کہ یہ پیسہ کسی بہتر مقصد پر لگایا جائے۔ یہی سوچ حسن منیر کو کسی اچھے سکول میں داخل کرانے کا سبب بنی۔
دوستوں اور ماہرینِ تعلیم سے مشورے لیے۔ کسی نے پشاور ماڈل کا کہا، کسی نے فارورڈ سکول کی تعریف کی۔ میرے عزیز دوست، پشاور کامرس کالج کے سینیئر پروفیسر جہانزیب صاحب نے ورسک ماڈل سکول اینڈ کالج کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہاں ہیڈ ماسٹر سبحان اللہ صاحب سے ضرور ملاقات کی جائے۔ورسک ماڈل پہنچا تو ہیڈ ماسٹر سبحان اللہ صاحب کے اندازِ گفتگو، سادگی، محبت اور توجہ نے دل جیت لیا۔ والدین سے ان کا رویہ “یقین وکہ، یقین وکہ” کہہ کر اعتماد دینا ایک بہترین سربراہ کی پہچان ثابت ہوا۔
وہاں سے اٹھا تو مجھے لگا جیسے فلسفہ اتحاد، تنظیم اور یقینِ محکم اپنی عملی شکل میں دیکھ لیا ہو۔ حسن منیر کو داخل کرانے کے بعد فریال منیر کو بھی اسی ادارے کا حصّہ بنا دیا۔ آج حسن منیر دسویں جماعت جبکہ فریال سیکنڈ ایئر میں اسی ادارے میں کامیابی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔
ہیڈ ماسٹر سبحان اللہ صاحب ہی کیا، وہاں ہر استاد یوں محسوس ہوا جیسے دنیا میں صرف پڑھانے، تربیت کرنے اور نسلِ نو کی اصلاح کے لیے آئے ہوں۔قابلِ ذکر اساتذہ میں سر اشفاق، سر سلمان، سر فیض، سر باسط، سر سخی، سر شوکت، سر احتشام طارق جبکہ خواتین میں مس صابرہ، مس عظمیٰ، مس کلثوم، مس عالیہ، مس نادیہ اور مس آمنہ شامل ہیں۔ جن سے ملاقاتوں نے میرے دل پر گہرے اثرات چھوڑے۔
سکول کے پرنسپل سر معین اور ڈائریکٹر اقبال صاحب سے ملاقات نے ثابت کیا کہ یہ ادارہ صرف ایک سکول یا کالج نہیں بلکہ ایک تربیت گاہ ہے جہاں شعوری طور پر کردار سازی پر کام ہوتا ہے۔سبحان اللہ صاحب گزشتہ 21 سال سے ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بڈہ بیر سے تعلق رکھنے والے خلیل مومند، ٹرپل ماسٹر (اسلامیات، ایم ایڈ، ایچ آر ایم) رکھنے والے اس باوقار معلم سے تعلیم و تربیت پر تفصیلی گفتگو ہوئی.
ملک میں تعلیم کے زوال پر ہیڈ ماسٹر سبحان اللہ صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے کہا کہ والدین اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔ وہ بچوں سے صرف ڈاکٹر، انجنیئر یا وکیل بننے کی توقع رکھتے ہیں مگر اچھا انسان بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔اساتذہ بھی والدین کے رویے دیکھ کر سنجیدگی کھو بیٹھتے ہیں، یوں نظام کمزور ہوتا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو پہلے ماں، پھر باپ، پھر خاندان اور آخر میں معاشرے سے سیکھتا ہے۔جس بچے کو اچھا ماحول ملے وہ بہترین انسان اور قوم کا سرمایہ بنتا ہے۔ مثال دیتے ہوئے کہا:“ہمارے پاس ایسے طلبہ ہیں جو گالی سے بھی ناواقف ہیں، جبکہ کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں بچوں کے لب و لہجہ سے انکا پس منظر جھلکتا ہے۔ اس میں بچے کا قصور نہیں، ماحول کا قصور ہے۔”
سبحان اللہ صاحب نے مولانا غلام الرحمان صاحب کا قول نقل کیا:“اگر کوئی عالم بخاری شریف پڑھائے مگر اسکی نیت ٹھیک نہ ہو تو فائدہ نہیں، جبکہ انگلش پڑھانے والا نیک نیتی سے کام کرے تو بہترین نتائج ملتے ہیں۔”
ہیڈ ماسٹر صاحب کے بقول یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے نصاب کے خالق بیوروکریٹس یا وہ سیاسی افراد ہوتے ہیں جنہیں تدریس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔انہوں نے افسوس سے کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام عالمی مالیاتی اداروں اور ایڈم سمتھ جیسے تھنک ٹینکس کی پالیسیوں کے تابع بنا دیا گیا ہے۔گیٹ ٹیسٹ اور ایسے امتحانات کا مقصد ملک کی بہترین کریم کو باہر منتقل کرنا ہے۔“پودا ہم لگاتے ہیں، آبپاشی ہم کرتے ہیں، مگر پھل دینے کے وقت وہ ہم سے چھین لیا جاتا ہے۔”
انہوں نے کہا:“دنیا میں سب سے زیادہ ٹیلنٹ برصغیر میں، پھر پاکستان میں، پھر خیبر پختونخوا میں اور سب سے زیادہ قبائلی علاقوں میں ہے۔ خصوصاً وزیرستان کے لوگ اللہ کی خاص نعمت ہیں۔”مگر افسوس کہ وہاں اسکول بموں سے اڑا دیے گئے، جو بچے کلاس میں جاتے بھی ہیں وہاں لرننگ نہیں ہوتی۔ یہ سب منصوبہ بندی کے تحت تعلیم کے خاتمے کی کوشش ہے۔
کلسٹر سسٹم کو بہترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ بورڈز شفافیت نہیں چاہتے۔امتحانی ڈیوٹیز اکثر رشوت اور سفارش سے لی جاتی ہیں، لہٰذا مقصد نقل روکنا نہیں بلکہ کمائی ہوتا ہے۔ایسے میں سسٹم کیسے بہتر ہو؟ سبحان اللہ صاحب نے SLO نظام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ رٹّہ کلچر کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
تعلیمی سسٹم کی اصلاح — کیا کرنا ہوگا؟ سوال کے جواب میں انہوں نے کہا سیاسی مداخلت کا فوری خاتمہ کرنا پڑے گا۔ جب تک تعلیمی ادارے سیاست سے پاک نہیں ہوں گے، نظام بہتر نہیں ہوگا۔ اساتذہ اور والدین اپنی ذمہ داریاں سمجھیں، جب تک دونوں فریق کردار ادا نہیں کریں گے، اچھے انسان پیدا کرنا مشکل ہے، قابل لوگوں کو آگے لانا ہوگا“ہمیں اچھے اور مخلص لوگوں کو نظام میں اہم ذمہ داریاں دینی ہوں گی۔”۔ بقول اقبال:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
![]()