میں پاکستان جا رہا تھا، لیکن میرا سٹے بحرین ایئرپورٹ میں تین گھنٹے کا تھا۔ ایئرپورٹ کی وہ بڑی ہال، جہاں لوگ اپنے اپنے سفر کی کہانیاں لیے بھاگتے پھرتے ہیں، وہاں انتظار گاہ میں میرے سامنے ایک پردیسی بیٹھا تھا، جو چھٹی پر جا رہا تھا اپنا وطن دیکھنے۔ وہ شخص نہایت تھکا ہوا لگ رہا تھا، جیسے زندگی کی لمبی دوڑ نے اس کے جسم پر اپنی چھاپ چھوڑ دی ہو۔ اس کے چہرے پر دھوپ کے نشانات، آنکھوں میں نیند کی کمی اور لہجے میں تھکن کی جھلک واضح تھی۔ ہر بار جب وہ اپنی ٹوپی کی نچلی سرحد کو تھامتا، ایسا لگتا جیسے دنیا کی بھاری ذمہ داریوں نے اس کے کندھوں پر بوجھ ڈال رکھا ہو۔

میں نے ہمت کی اور پوچھا: “کب سے ہو یہاں؟” اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی تھی، اور مسکراہٹ تھکن کے باوجود کچھ سکون دیتی تھی، مگر وہ مسکراہٹ ایسی تھی جیسے کوئی پرانا زخم پھر سے ہل گیا ہو۔ وہ ایک لمحے کے لیے خاموش رہا، پھر بولا: “بیس سال ہو گئے ہیں، صاحب۔” اس کا لہجہ سیدھا، مگر بھرپور تھکن بھرا تھا۔میں نے دوبارہ پوچھا: “کیا حاصل ہوا؟”اس نے سر جھکایا اور دھیرے سے بولا: “پیسہ… اور کچھ نہیں۔” اس کے الفاظ میں ایک ایسا درد چھپا ہوا تھا جو سیدھا دل پر اثر کرتا تھا۔ پھر اس نے آہستگی سے کہا: “صاحب، اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ دولت کے بدلے میں کیا دیا، تو میں کہوں گا — جوانی۔”

میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اب بھی مسکرا رہا تھا، مگر آنکھوں کی نمی وہ سب کچھ بیاں کر رہی تھی جو الفاظ نہیں کر سکتے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر کامیابی کے ساتھ اس کی زندگی سے ایک قیمتی لمحہ چھن گیا ہو۔اس نے بات جاری رکھی: “جب میں یہاں آیا تھا تو ماں کے ہاتھوں کی بنی ہوئی روٹی، باپ کا سایہ، دوستوں کی محفلیں — سب پیچھے چھوڑ آیا۔ سوچا تھا دو تین سال کام کر کے واپس جاؤں گا، لیکن دو تین سال دس بن گئے، اور اب بیس ہو گئے ہیں۔ اب ماں قبر میں ہے، باپ بیمار، بہنوں کے بچے اسکول جاتے ہیں، اور میں آج بھی انہی ٹن کے کمروں میں ہوں، ان دیواروں کے بیچ جہاں ہر چیز میکانیکی اور سرد ہے۔”

میں خاموش رہا۔ اس کی باتوں نے میرے دل میں بھی ایک خالی پن پیدا کر دیا۔ وہ بولا:“صاحب، پردیس بہت کچھ دیتا ہے — عزت، پیسہ، سہولت — لیکن اس کی قیمت صرف ایک ہے: تنہائی۔ یہاں ہر دن آپ کو یاد دلاتا ہے کہ آپ نے جو چھوڑا ہے وہ واپس نہیں آ سکتا۔ اگر آپ وہ برداشت کر سکتے ہیں تو آ جائیں، لیکن یاد رکھیں، یہاں ہر کامیابی کے پیچھے پسینے کے ساتھ آنسو بھی شامل ہوتے ہیں، اور یہ آنسو اکثر کسی کے ساتھ شیئر نہیں ہوتے۔”میں نے سوچا کہ شاید ہر کامیاب انسان کی زندگی کے پیچھے ایک داستان ہوتی ہے — آنکھوں میں چھپی ہوئی تنہائی، دل کی گہرائیوں میں دبی ہوئی اداسی، اور وہ لمحے جو کبھی واپس نہیں آتے۔ ہر کامیابی کے ساتھ ایک قیمت چکائی جاتی ہے، اور وہ قیمت دنیا کے سامنے نظر نہیں آتی۔ کامیابی کی روشنیاں ہمیں بہکاتی ہیں، مگر دل کے اندر ہمیشہ ایک خالی پن باقی رہتا ہے۔

میں نے محسوس کیا کہ دولت کا حصول انسان کو طاقت ضرور دیتا ہے، مگر وہ محبت، قربت اور انسانیت کی گرمائش کبھی مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکتا۔ وہ آدمی بولا: “یہاں وقت کا حساب ہے، ہر لمحہ قیمتی ہے، لیکن آپ کی یادیں، آپ کا دل، آپ کی جوانی پیچھے رہ جاتی ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں، اور جو ایک بار گم ہو جائے، وہ واپس نہیں آتا۔”میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ کتنے لوگ اپنی زندگی کے قیمتی سال یوں گنوا دیتے ہیں — پیسہ تو کماتے ہیں مگر خود کو، اپنے رشتوں کو اور اپنی خوشیوں کو کھو دیتے ہیں۔ پردیس میں کامیابی کے نام پر ہم اکثر اپنی ذاتی زندگی کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اور جب سال گزر جاتے ہیں تو پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔

یہ آدمی ایک زندہ مثال تھا کہ زندگی کے اصل خزانے پیسہ نہیں بلکہ وقت، محبت اور تعلقات ہیں۔ یہ بات عام لگتی ہے، مگر اسے سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جب انسان اپنی جوانی اور رشتے کھو دیتا ہے، تب اسے احساس ہوتا ہے کہ پیسہ کبھی سب کچھ نہیں بدل سکتا۔میں نے اس سے پوچھا: “کیا آپ کو افسوس نہیں؟”وہ بولا: “افسوس ہمیشہ رہتا ہے، مگر میں نے جو انتخاب کیا وہ ضروری تھا۔ لیکن ہر دن اس تنہائی کا سامنا کرنا، یہ سب سے بڑی قیمت ہے۔ آپ کامیابی کے پیچھے بھاگتے رہیں، لیکن یاد رکھیں، کامیابی کا ہر لمحہ اپنی قیمت رکھتا ہے، اور یہ قیمت صرف پیسہ نہیں بلکہ آپ کی یادیں، آپ کا دل اور آپ کی جوانی بھی ہو سکتی ہے۔”

میں نے سوچا کہ شاید ہر کامیاب انسان کی کہانی کے پیچھے ایک اداسی چھپی ہوتی ہے — وہ اداسی جو لفظوں میں نہیں سماتی۔ ہم سب دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ پیسہ وہ وقت واپس نہیں لا سکتا جو ہم نے اپنے بچوں، ماں یا باپ کے ساتھ نہیں گزارا۔ وہ لمحے جو جوانی میں گنوا دیے، وہ کبھی واپس نہیں آتے۔پردیس میں قسمت ضرور بنتی ہے، مگر اس کے ساتھ ایک تلخ حقیقت بھی جڑی ہوتی ہے — ہر کامیابی کی قیمت صرف محنت نہیں، بلکہ تنہائی، یادیں اور گزرے ہوئے لمحات بھی ہوتے ہیں۔ انسان اپنی جوانی، اپنے خواب، اور کبھی کبھی اپنی محبتیں بھی قربان کرتا ہے۔ آخر میں یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ یاد آتے ہیں۔

ہر وہ شخص جو پردیس کی راہوں پر نکلتا ہے، اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ کامیابی کا پیمانہ صرف مالی فائدہ نہیں بلکہ وہ سکون اور محبت ہے جو ہم اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ اگر انسان اپنی بنیادیں مضبوط رکھے، وقت کی قدر کرے، اور تعلقات کو کبھی نظر انداز نہ کرے، تو یہ سفر بظاہر مشکل ہونے کے باوجود قابلِ برداشت بن جاتا ہے۔کامیابی کا سفر صرف دولت یا مقام حاصل کرنے کا نام نہیں — بلکہ یہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی کے سب سے قیمتی لمحات، ہماری یادیں اور محبتیں کبھی بھی پیسہ یا شہرت سے نہیں خریدی جا سکتیں۔

میں وہ دن کبھی نہیں بھولا۔ آج بھی جب کسی پردیسی سے ملاقات ہوتی ہے، میں اس کی آنکھوں میں وہی کہانی دیکھتا ہوں — جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ وہ داستان ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کے اصل خزانے پیسہ یا شہرت نہیں، بلکہ محبت، یادیں اور تعلقات ہیں۔ یہی خزانے انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بناتے ہیں، اور یہی چیزیں زندگی کو خوبصورت اور قابلِ قدر بناتی ہیں۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے