ایک یہودی، مسلمانوں کی ایک بستی سے گزرتے ہوئے اپنے دل میں ایک منصوبہ بٹھا بیٹھا کہ کیوں نہ بستی کے لوگوں کے دل میں شک پیدا کیا جائے اور انہیں اپنے علما پر بداعتمادی کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کی چالاکی اور سازش واضح تھی، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ سادہ لوح نظر آنے والا چرواہا بھی اللہ کی عطا کردہ بصیرت اور فہم کا روشن چراغ رکھتا ہے، جو اس کے ہر فتنہ انگیز قدم کو ناکام بنا دے گا۔ راستے میں وہ چرواہے سے ملا، اور یوں گفتگو کا آغاز ہوا جو نہ صرف عبرت آموز بلکہ ایمان اور حکمت کی روشنی سے بھرپور تھا۔

چرواہا اپنے مویشی چرا رہا تھا اور دھوپ میں تھوڑی تھکن محسوس کر رہا تھا، مگر اس کے چہرے پر سکون اور عقل کی روشنی نمایاں تھی۔ یہودی نے سوچا کہ یہ شخص آسان شکار ہوگا، کیونکہ یہ علم و حکمت میں زیادہ آگاہ نہیں لگتا تھا۔ اس نے سلام کیا اور بات چیت کا آغاز ایک دوستانہ انداز میں کیا تاکہ چرواہے کے دل میں اعتماد پیدا ہو۔یہودی نے اپنی باتوں میں محض نرمی اور دوستانہ لہجہ اختیار نہیں کیا بلکہ آہستہ آہستہ دین کے متعلق فتنہ انگیز سوچ بھی ڈالنے کی کوشش کی۔ اس نے کہا کہ قرآن میں بہت سی آیات متشابہ ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں۔ اس تکرار کو ختم کر دیا جائے تو قرآن اور بھی مختصر ہوجائے گا اور حفظ کرنا آسان ہوگا۔

چرواہا نے یہ سن کر اپنی آنکھیں بڑی کیں، لیکن کچھ نہیں کہا۔ اس کا انداز بالکل پرسکون تھا، جیسے وہ تمام باتوں کا تجزیہ کر رہا ہو۔ وہ نہ تو فوراً جواب دینے لگا، نہ تیز ردعمل دکھایا۔ اس خاموشی نے یہودی کو اور بھی مطمئن کر دیا کہ اس کی سازش کامیاب ہو رہی ہے۔یہودی خوش ہو کر بولا کہ دیکھو، میں نے تمہیں حقیقت بتائی اور تمہارا دل یقیناً میری باتوں پر قائم ہو جائے گا۔ چرواہا نے نرمی سے پوچھا کہ کیا وہ واقعی چاہتا ہے کہ قرآن میں تکرار والی آیات کو ختم کیا جائے تاکہ یاد کرنا آسان ہو جائے؟

یہودی نے بڑی فخر کے ساتھ کہا کہ ہاں، بالکل یہی بات میں کہنا چاہتا ہوں۔ اس کا خیال تھا کہ چرواہا فوراً اس کے منصوبے میں گرفتار ہو جائے گا اور وہ اسے سادہ لوح قرار دے دے گا۔چرواہے نے بڑے سکون سے کہا کہ اگر تکرار قرآن میں غیر ضروری ہے تو پھر تمہارے جسم میں بھی کئی اعضاء ایسے ہیں جو بظاہر تکرار پیدا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، دو ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ، دو پیروں میں سے ایک پیر، دو آنکھیں، دو کان اور دو گردے، سب کیا ضرورت ہیں؟ اگر ان کو بھی نکال دیا جائے تو جسم ہلکا اور زندگی آسان ہو جائے گی۔

یہودی اس بات سن کر حیران رہ گیا۔ چرواہے کی مثال میں ایک گہری حکمت چھپی ہوئی تھی۔ اس نے کہا کہ انسان کے جسم میں یہ تکرار اس کی حفاظت، زندگی کی تکمیل اور توازن کے لیے ضروری ہے، بالکل قرآن کی تکرار کی طرح جو دل پر اثر ڈالنے، یاد دہانی اور ایمان مضبوط کرنے کے لیے ہے۔چرواہے کی بات نے یہودی کی چالاکی کو ناکام کر دیا۔ وہ فوراً اٹھا اور اپنی راہ پر روانہ ہو گیا، اور سوچتا رہا کہ جب ایک سادہ سا چرواہا بھی حقیقت اور فتنہ کی پہچان رکھتا ہے تو علما اور دانشوروں کا کیا حال ہوگا۔یہ سادہ گفتگو ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایمان صرف کتابی علم یا رسمی عبادت تک محدود نہیں۔ دل کی روشنی، اللہ کی محبت اور سادہ ایمان بھی فتنے کو پہچاننے کی طاقت رکھتے ہیں۔

چرواہے کی مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب دل اللہ کی محبت اور نور سے منور ہو تو وہ فتنہ انگیز باتوں اور چالاکی کی سازش کو فوراً شناخت کر لیتا ہے۔ یہ ایمان کی قوت اور اللہ کی ہدایت کی پہچان ہے۔قرآن کی تکرار کی حکمت بھی اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ ہر آیت، چاہے وہ بظاہر دہرانے والی لگے، دل میں اثر ڈالنے، ایمان کو تازہ رکھنے اور عملی زندگی میں سبق دینے کے لیے موجود ہے۔قرآن خود فرماتا ہے:“اگر تم شک میں ہو اس کتاب کے بارے میں جو ہم نے نازل کی ہے تو اس کی مانند کوئی ایک ہی سورت بنا لاؤ۔” (سورۃ البقرہ، 2:23، ترجمہ)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:“تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔” (بخاری و مسلم، ترجمہ)یہودی کی سازش اس بات کا ثبوت ہے کہ فتنے ہمیشہ نرم لہجے، علم کا لبادہ اور خیرخواہی کے بہانے آتے ہیں۔ مگر ایمان دار دل اللہ کی روشنی سے منور ہو تو یہ فتنہ فوری طور پر بے اثر ہو جاتا ہے۔

چرواہے کی مثال یہ بھی بتاتی ہے کہ دین کی حفاظت صرف علما یا دانشوروں کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ عام لوگ بھی اللہ کی عنایت سے فتنے کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔آج کی نسل معلومات اور ٹیکنالوجی میں تو تیز ہے، مگر دین میں اکثر وہ شارٹ کٹس یا آسان راستے تلاش کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ نماز، قرآن کی تلاوت یا روزمرہ کے اعمال میں آسانیاں نکالیں تو زندگی زیادہ آسان ہو جائے گی۔ لیکن چرواہے اور یہودی کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دین میں آسان راستے تلاش کرنے کی سوچ اکثر فتنہ کا حصہ ہوتی ہے۔چرواہے نے یہودی کی فتنہ انگیز باتوں کو فوراً پہچان لیا اور اسے حقیقت کا آئینہ دکھا دیا۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ دین میں جو معمولات اور تکراریں ہیں، جیسے قرآن کی تلاوت میں آیات کی دہرانا یا عبادات کی ترتیب، وہ بظاہر مشکل لگ سکتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب حکمت، تربیت اور دل کی مضبوطی کے لیے ہیں۔

نوجوانوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دین میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ ایمان کی ترقی، قرآن کی سمجھ، نماز اور دیگر اعمال کی برکت تبھی حاصل ہوتی ہے جب ہم اللہ کی مقرر کردہ ہدایات کے مطابق محنت اور لگن سے عمل کریں۔ قرآن میں بار بار دہرانے والی آیات، نماز کے مقررہ انداز، روزے کے اصول سب اسی حکمت کا حصہ ہیں کہ انسان دل و دماغ سے دین کے ساتھ جُڑے۔اگر آج کے نوجوان آسان راستے تلاش کریں، جیسے تلاوت میں جلدی ختم کرنا، نماز میں ہلکے انداز میں جانا یا دین کی تعلیم میں صرف “شارٹ کٹ” طریقے اختیار کرنا، تو وہ وہی راستہ اختیار کر رہے ہیں جو یہودی نے چرواہے کے ذریعے تجویز کیا تھا، یعنی حقیقت میں نقصان کا راستہ۔چرواہے کی مثال یہ سکھاتی ہے کہ حقیقی فہم اور بصیرت کے لیے دل صاف اور ایمان مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اگر نوجوان اللہ کی عنایت اور قرآن کی روشنی سے اپنے دل کو منور کریں، تو وہ شارٹ کٹس یا آسان راستوں کے فتنہ کو فوراً پہچان سکتے ہیں اور صحیح راستے پر قائم رہ سکتے ہیں۔

نوجوانوں کے لیے واضح ہے: دین میں کوئی شارٹ کٹ نہیں، اور ہر تلاوت، ہر عبادت، ہر معمول اللہ کی حکمت کے مطابق ضروری ہے۔ صرف دل کی روشنی، صبر، محنت اور اللہ کی ہدایت پر اعتماد رکھنے سے ہی دین کا حقیقی فہم اور اثر حاصل کیا جا سکتا ہے۔اللہ ہمیں قرآن کا عاشق، اس کا محافظ، اس کے نور سے منور دل اور دین میں صحیح رہنمائی کے لیے محنت کرنے والا بنائے۔ آمین.

:

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے