پاکستان کے عام شہری کے ذہن میں ایک بڑا سوال کھڑا ہے: ریاستی پالیسیوں میں یہ واضح تضاد کیوں نظر آتا ہے؟ایک طرف سابق فاٹا میں دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشنز جاری ہیں، جہاں دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ کئی بے گناہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ دوسری طرف کچے کے علاقوں میں ڈاکو روزانہ لوگوں کو اغوا کرتے ہیں، تاوان لیتے ہیں، انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، مگر وہاں دہشت گردی جیسا سخت ردعمل دیکھنے میں نہیں آتا۔

سابق فاٹا: دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائیاں

سابقہ فاٹا وہ خطہ ہے جہاں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ دہشت گردی نے جگہ بنائے رکھی۔ریاست نے قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں متعدد ملٹری آپریشنز کیے، جیسے: آپریشن راہِ نجات آپریشن خیبر سیریز آپریشن ضربِ عضب آپریشن ردالفساد.

ان کارروائیوں سے دہشت گردی پر کچھ حد تک قابو پایا گیا، مگر عام لوگ شدید متاثر ہوئے۔بے گھر ہونے والے خاندان، شہادتیں، معاشی نقصان اور سماجی بربادی یہ سب اس جنگ کی قیمت تھی۔ آج بھی کئی علاقوں میں فوجی نگرانی اور چیک پوسٹس پر سخت ردعمل نظر آتا ہے۔اس کے بالکل برعکس کچے کے علاقے خاص طور پر سندھ اور پنجاب کی سرحدی بیلٹس ایسے لگتے ہیں جیسے ریاست کے اندر ریاست ہوں۔روزانہ اغوا، بھاری تاوان، پولیس مقابلے، وڈیروں اور بعض سیاسی قوتوں کی پشت پناہی، غیرقانونی اسلحہ یہ سب ہونے کے باوجود وہاں دہشت گردی جیسے بڑے آپریشن نہیں ہوتے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں دہشت گرد نہیں بلکہ "ڈاکو” کہا جاتا ہے، جبکہ ان کے جرائم دہشت گردی سے کم نہیں۔ ریاست کے دو معیار کیوں نظر آتے ہیں؟

سیاسی اثر و رسوخ

کچے کے علاقوں میں کئی گروہوں کے پیچھے طاقتور سیاسی شخصیات کی حمایت کی بات زبان زدِ عام ہے۔ اس وجہ سے ریاستی ادارے کھل کر کارروائی کرنے سے کتراتے ہیں۔

اسٹریٹجک اہمیت کا فرق

سابق فاٹا بین الاقوامی سرحدوں کے قریب واقع ہے اور دہشت گرد نیٹ ورک وہاں زیادہ خطرناک سمجھے جاتے تھے۔کچے کے علاقے اگرچہ عوام کے لیے خطرناک ہیں، مگر ریاست انہیں قومی سلامتی کے بجائے امن و امان کا مسئلہ سمجھتی ہے۔

بیانیے کا فرق

ریاست نے دہشت گرد کو "دشمن” قرار دیا، مگر کچے کے ڈاکو کو "جرائم پیشہ”۔یوں نیشنل سکیورٹی بیانیے میں جو شدت فاٹا میں تھی، وہ کچے کے علاقوں میں کبھی نہیں لائی گئی۔

طاقت اور وسائل کا مسئلہ

کچے کا علاقہ جغرافیائی طور پر مشکل، دلدلی اور وسیع ہے—یہاں کارروائی کرنا عام پولیس کے لیے مشکل ہے، مگر فوج کا استعمال سیاسی طور پر حساس سمجھا جاتا ہے۔عوام کا سوال: کیا انسانی جان کی قیمت مختلف ہے؟پاکستانی عوام حیران ہیں کہ فاٹا کے بے گناہ شہریوں کی شہادتوں پر "قومی سلامتی” کا جواز پیش کیا جاتا ہے مگر کچے کے بے گناہ شہریوں کی زندگیوں کو سیاسی بنیاد پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یہ دوہرا معیار قومی یکجہتی کو کمزور کرتا ہے اور ریاست سے اعتماد اٹھاتا ہے۔ریاست اگر واقعی ملک میں امن چاہتی ہے، تو ضروری ہے کہ:

امن و امان اور دہشت گردی کے درمیان غیر ضروری فرق ختم کیا جائے

کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف بھی ویسے ہی بڑے آپریشن کیے جائیں جیسے فاٹا میں ہوئے

سیاسی مداخلت ختم کی جائے

تمام شہریوں کی جان کو برابر اہمیت دی جائے

متاثرہ خاندانوں کے لیے مضبوط ریہابیلیٹیشن پروگرام بنائے جائیں.

ریاست اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب ہر شہری کو برابر کا انسان سمجھا جائے۔فاٹا کا شہری ہو یا کچے کا، دونوں کی زندگی، عزت اور گھر ایک جیسے قیمتی ہیں۔اگر پاکستان کو ایک مضبوط اور متحد قوم بننا ہے، تو دوہری پالیسیوں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے