
آج کا دن پوری امتِ مسلمہ کے لیے نہایت کرب، دکھ اور صدمے کا دن بن کر آیا ہے، کیونکہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب سفر کرنے والی ایک بس میں سوار عمرہ زائرین ایک ایسے حادثے کا شکار ہوئے جس نے نہ صرف ان کے خاندانوں کو صدمے میں مبتلا کیا بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کو بھی غم سے بھر دیا۔ یہ سفر جو روحانی خوشی، نورانیت، اور ایمان کی تازگی کے ساتھ شروع ہوا تھا، اچانک ایک ہولناک سانحے میں بدل گیا جس کا تصور کرنا بھی دل کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
یہ بس ان زائرین کو لے کر مدینہ طیبہ کی جانب رواں دواں تھی جہاں وہ مسجد نبوی ﷺ کی زیارت کے ساتھ اپنے روحانی سفر کو مکمل کرنے کے خواہشمند تھے، لیکن راستے میں پیش آنے والا تصادم اور پھر خوفناک آگ نے سب کچھ پلک جھپکتے میں بدل دیا۔ بس میں زیادہ تر وہ افراد شامل تھے جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور اللہ کے گھر کا دیدار کر کے جذباتی اور روحانی سکون کے احساس کے ساتھ دوسری مقدس سرزمین کی جانب بڑھ رہے تھے۔
حادثہ رات کے وقت اس مقام پر پیش آیا جہاں ٹریفک کم اور فضا خاموش تھی، اور اسی خاموشی میں ایک ٹینکر اور بس کا ٹکراؤ ایسا ہوا کہ وقت، موقع اور فیصلہ سب بے معنی ہوگئے۔ یہ حادثہ اچانک اس طرح پیش آیا کہ مسافروں کو اپنی جانیں بچانے کی مہلت بھی نہ مل سکی اور لمحوں میں آگ نے خوفناک شکل اختیار کر کے بس کے ہر حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
بس میں موجود اکثر مسافر اُس وقت نیند میں تھے کیونکہ طویل سفر اور روحانی تھکن نے انہیں آرام پر مجبور کیا ہوا تھا، مگر افسوس کہ یہ سکون بھری نیند ان کے لیے آخری نیند ثابت ہوئی۔ ٹکراؤ کی شدت سے بس پوری طرح ہل گئی اور اس جھٹکے کے بعد آگ اتنی تیزی سے بھڑکی کہ ہوش میں آنے والوں کو بھی خود کو بچانے اور باہر نکلنے کا موقع نہ مل سکا۔آگ کے شعلے اندھیرے کو چیرتے ہوئے ایک ایسے منظر کی تشکیل کر رہے تھے جسے بیان کرنا الفاظ کی توہین اور احساس کی شکست کے مترادف ہے۔ آگ کے باعث شدید دھواں پھیل گیا اور بس کے اندر دھوئیں کا بھر جانا جان لیوا ثابت ہوا۔ بچاؤ محض ایک خواہش رہ گیا اور حقیقت نے بے بسی کی تصویر بن کر ان چہروں کو خاموش کردیا جن پر کبھی اللہ کے ذکر کا نور بسا تھا۔
ریسکیو ٹیموں نے بھرپور کوشش کرتے ہوئے آگ پر قابو پانے اور زندہ بچ جانے والوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی سعی کی، لیکن حادثے کی شدت نے حالات کو اس قدر مشکل بنایا کہ شناخت بھی ایک چیلنج بن کر سامنے آئی۔ زخمیوں کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے انہيں خصوصی نگہداشت میں رکھا گیا اور ماہر ڈاکٹروں کی ٹیمیں پوری کوشش میں مصروف رہیں۔اس واقعے نے نہ صرف متاثرین کے خاندانوں کی زندگیوں میں ایک خالی پن چھوڑا بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو بھی ایک دردناک سبق دیا کہ زندگی کی حقیقت ناپائیداری کے علاوہ کچھ نہیں۔ انسان مقدس ترین مقامات کی طرف سفر پر بھی ہو تو موت کے لمحے سے بے خبر رہتا ہے، کیونکہ زندگی اور موت کا فیصلہ کسی انسانی منصوبہ بندی پر نہیں بلکہ اللہ کے حکم پر قائم ہے۔
اسی مقام پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہمارے دلوں کو تسلی بھی دیتا ہے اور حقیقت کی طرف متوجہ بھی کرتا ہے:”ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور پھر تم سب کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔”یہ واقعہ ہمیں اس گہری سوچ کی طرف لے کر جاتا ہے کہ انسان دنیاوی ساز و سامان، منصوبے، خواہشات اور خواہشات کے پیچھے دوڑنے میں مگن رہتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی چند سانسوں کی امانت ہے جو کسی بھی لمحے واپس لی جا سکتی ہے۔ موت کی حقیقت ہمیں یہی پیغام دیتی ہے کہ ہماری اصل کامیابی دنیا کی لمبی عمر نہیں بلکہ اچھے انجام کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا ہے۔
حادثے میں خواتین اور کم سن بچے بھی شہید ہوئے، جنہوں نے شاید پہلی بار اپنے والدین کے ساتھ یہ مقدس سفر اختیار کیا تھا۔ ان کی معصوم مسکراہٹیں، ننھی خواہشیں، اور مقدس مقامات دیکھنے کی آرزو اس آگ میں خاموش ہوگئی، مگر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے مقربین میں جگہ دے گا کیونکہ وہ سفرِ عبادت میں تھے نہ کہ دنیاوی تعیش میں۔
حادثے کے بعد مسلمانوں کے دلوں میں ایک مشترکہ درد کی لہر دوڑ گئی اور ہر شخص نے متاثرین کے لیے دعا کا اہتمام کیا، کیونکہ ایسے حادثات پوری انسانیت کے احساسات کو جھنجوڑ دیتے ہیں۔ کئی خاندان ایسے بھی ہیں جو اپنے پیاروں سے آخری بار گفتگو بھی نہ کر سکے، اور اب ان کے پاس صرف یادیں اور آنسو ہی باقی رہ گئے ہیں۔
دنیا بھر میں سوشل میڈیا، مساجد، مدارس اور مذہبی اجتماعات میں ان مرحومین کے لیے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلمان اس بات پر بھی کثرت سے گفتگو کر رہے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے گھر کی زیارت اور اپنی حبیب ﷺ کی مسجد کی طرف سفر کی حالت میں موت دی جو کہ بہت بڑی سعادت تصور کی جاتی ہے بشرطِ ایمان و اخلاص۔ایسے وقت میں نبی کریم ﷺ کی وہ حدیث ہمارے دلوں کو کچھ تسلی فراہم کرتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے:”مؤمن کی موت اس کے لیے دنیا کی تھکاوٹوں اور پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ بن جاتی ہے۔”
اللہ کے راستے میں، عبادت کے سفر میں یا نیکی کی نیت سے سفر کرنے والے افراد کا انجام دنیا کے معیار سے نہیں بلکہ اللہ کے رحم سے دیکھا جاتا ہے۔ امید ہے کہ ان زائرین کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں میں ڈھانپ لے گا اور ان کے درجات بلند فرمائے گا۔یہ حادثہ ہمیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ خاندان کے افراد، دوست اور رشتے داروں کی قدر زندگی میں کی جائے کیونکہ جدائی کا لمحہ ہمیشہ اطلاع دے کر نہیں آتا۔ ہمیں زندگی کے ہر دن، ہر گھڑی اور ہر عمل کو اللہ کی رضا کے تابع کر کے گزارنا چاہیے تاکہ رخصت کا لمحہ کامیابی کا لمحہ بن سکے۔
اس موقع پر انسانیت کا پیغام سب سے اہم ہے کہ غم کا احساس اور دل کی نرمی ہی وہ جذبات ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور تعاون میں جوڑتے ہیں۔ ایسے سانحات قوموں، نسلوں اور زبانوں کے فرق کو ختم کر دیتے ہیں اور انسانیت کی واحد سچائی کو سامنے لے آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے تمام افراد کو معافی اور بلند درجات عطا فرمائے، ان کے اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل سے نوازے، زخمیوں کو مکمل صحت اور شفا عطا فرمائے، اور یہ سانحہ ہمارے دلوں کو بیدار اور ایمان کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفاظت میں رکھے، ہر سفر کو خیر کا سفر بنائے، اور ہمیں نیکی، محبت، امن اور صبر کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔
![]()