تحریر:انجینئر ڈاکٹر محمد اطہر سوری

گزشتہ جمعے کے دن ایک نہایت باوقار اور قابل شخصیت سید علی نواز گیلانی صاحب کے انتقال کی خبر ملی۔ وہ ایک ایسے انسان تھے جن کی زندگی علم، خدمت اور مسلسل مصروفیت سے بھری رہی۔ میں بحیثیت ایک مسلمان محض اللہ کی رضا کے لیے ان کے جنازے میں شریک ہوا۔ جنازے کے دوران ایک عجیب سا احساس دل میں ابھرا دنیا کی بے ثباتی اور انسان کی محدود عمر کا شعور ایک لمحے میں سامنے آ گیا۔ وہ شخص جس کے اردگرد کبھی لوگوں کا ہجوم رہتا تھا آج خاموشی سے مٹی تلے جا سویا۔ چند دفتری ساتھیوں کے سوا وہاں کوئی پہچان والا نہیں تھا۔ یہ منظر دل پر نقش ہو گیا اور قلم کو سوچنے پر مجبور کر گیا کہ آخر ہم کس سمت بڑھ رہے ہیں؟یہ سوال ذہن میں گونجتا رہا کہ ہم بحیثیت قوم کب تک اپنی انا اور ذاتی انتقام کی آگ میں جلتے رہیں گے؟ ہم نے ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات پیدا کرنا معمول بنا لیا ہے۔ ہماری گفتار میں تلخی، عمل میں ضد اور رویوں میں نفرت بھر چکی ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو غصے کو غیرت سمجھتی ہے اور معافی کو کمزوری۔ دراصل یہی وہ فکری زوال ہے جس نے ہماری اجتماعی روح کو زخمی کر دیا ہے۔آج معاشرے میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ درگزر، عاجزی اور احسان جیسے الٰہی اصولوں کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ ان کی جگہ انا، ضد، حسد اور تکبر نے لے لی ہے۔ کوئی شخص اگر اپنی غلطی مان کر معافی مانگ لے تو بجائے اس کی حوصلہ افزائی کے لوگ اسے کمزور یا بے غیرت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ معافی مانگنے والا شخص کمزور نہیں بلکہ بہادر ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے نفس پر قابو پاتا ہے اپنی انا کو توڑتا ہے اور یہی اصل شجاعت ہے۔ہمارا معاشرہ آج اس مقام پر آ پہنچا ہے جہاں بدگمانی، الزام تراشی اور سازش کو ذہانت سمجھا جاتا ہے۔ کسی کی عزت یا کیریئر تباہ کر دینا اب معمولی بات بن گئی ہے۔ اداروں میں ذاتی دشمنی کی بنیاد پر سازشیں کی جاتی ہیں جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں اور کسی قابل شخص کی ترقی روکنے کو فخر سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویے محض افراد نہیں بلکہ پورے معاشرے کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سرکاری اور نجی ادارے بھی انہی انا پرست رویوں کا شکار ہیں۔ بعض افسران اپنے ماتحت ملازمین سے محض ذاتی اختلاف کی بنیاد پر دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ کسی اہل اور دیانت دار شخص کی ترقی روک دینا یا اسے دور دراز مقام پر تبادلے کے ذریعے سزا دینا یہ سب روزمرہ کہانیاں بن چکی ہیں۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی کا رزق روکنے سے اپنا رزق نہیں بڑھتا۔ کسی کی محنت چھین کر ہم اپنے لیے خوشی نہیں حاصل کر سکتے۔ اللہ کی تقسیم میں کسی انسان کا دخل نہیں اور جو رزق ہم ظلم کے ذریعے حاصل کرتے ہیں وہ کبھی برکت نہیں لاتا۔ ایسے رزق سے گھروں میں سکون نہیں آتا بلکہ بے اطمینانی، بے برکتی اور نفسیاتی اذیت جنم لیتی ہے۔دنیا بھر میں قومیں اپنے اہل اور باصلاحیت افراد کو سرمایہ سمجھتی ہیں ان کی عزت کرتی ہیں ان سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹا ہے۔ یہاں اگر کوئی شخص اپنے علم، کردار یا کارکردگی سے نمایاں ہو جائے تو اس کے خلاف حسد کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ لوگ بجائے اس کے کہ اس کے تجربے سے سیکھیں، اسے نیچا دکھانے کے منصوبے بنانے لگتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بہترین دماغ، باصلاحیت نوجوان اور مخلص افراد یا تو مایوس ہو کر خاموش ہو جاتے ہیں یا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہم خود اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر رہے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ ترقی کیوں نہیں ہو رہی۔ قومیں ترقی تب کرتی ہیں جب وہ شخصیت پرستی سے نکل کر قابل عمل اور ایماندار سوچ کو سراہتی ہیں۔شاید ہمارے سارے مسائل کی جڑ یہی ہے کہ ہم آخرت کی جواب دہی کو بھول گئے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس کے ساتھ ہم نے ظلم کیا جس کی عزت یا روزی چھینی اس کا حساب ایک دن ہمیں خود دینا ہے۔سید علی نواز گیلانی کا جنازہ اس بات کی ایک خاموش یاد دہانی تھا کہ دنیا میں سب کچھ عارضی ہے۔ مال، طاقت، عہدہ سب ختم ہو جاتا ہے۔ قبر میں نہ تخت ساتھ جاتا ہے نہ طاقت۔ وہاں صرف اعمال کام آتے ہیں اور سب سے بڑا حساب حقوق العباد کا ہوگا یعنی بندوں کے حقوق کا۔ اللہ شاید اپنے حقوق معاف کر دے مگر بندے کا حق تب تک معاف نہیں ہوگا جب تک وہ بندہ خود معاف نہ کرے۔اگر ہم سچائی سے دیکھیں تو درگزر کمزوری نہیں بلکہ اصل طاقت ہے۔ کسی کا, قصور معاف کر دینا ایک ایسا عمل ہے جو انسان کے دل کو سکون دیتا ہے روح کو بلند کرتا ہے اور تعلقات میں زندگی واپس لاتا ہے۔ مگر ہم نے اپنے دلوں کو اس قدر سخت کر لیا ہے کہ چھوٹی سی بات پر برسوں کی رفاقت، دوستی یا رشتہ ختم کر دیتے ہیں۔ہمیں اپنے رویو پر غور کرنا چاہیے اگر ہم اللہ کی رضا کی خاطر اللہ کے بندوں کی معمولی خطا کو معاف نہیں کر سکتے تو پھر اللہ ہمیں کیسے معاف کرے گا۔اگر ہم اپنی انا کے خول سے باہر نکل آئیں تو معاشرے میں محبت، خلوص اور تعاون کی فضا دوبارہ جنم لے سکتی ہے۔ ایک دوسرے کو معاف کر کے ایک دوسرے کا سہارا بن کر ہم اپنی اجتماعی زندگی میں امن اور سکون لا سکتے ہیں۔یہ بات ہمیں سمجھنی ہوگی کہ جب ہم ذاتی انتقام کے جذبے میں اندھے ہو جاتے ہیں تو صرف ایک فرد نہیں بلکہ پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔ ایک افسر کا انا پرستی پر مبنی فیصلہ درجنوں خاندانوں کے رزق پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک سیاسی رہنما کی ذاتی ضد پوری قوم کو بحران میں ڈال سکتی ہے۔ ایک صحافی کی تعصب پر مبنی خبر کسی بے گناہ شخص کی ساکھ کو تباہ کر سکتی ہے۔اس لیے ہمیں اپنی انفرادی انا کے اثرات کو اجتماعی نقصان کی صورت میں دیکھنا ہوگا۔ معاشرہ تب ہی ترقی کرے گا جب ہم اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر سوچنا سیکھیں۔اب بھی وقت ہے کہ ہم رک جائیں۔ اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں۔ اپنی انا، اپنی ضد اور اپنے غصے کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کریں۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ طاقتور وہ نہیں جو دوسروں کو دبائے بلکہ وہ ہے جو اپنے غصے پر قابو پائے۔ قرآن کہتا ہے اور جو غصہ ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اللہ انہیں پسند کرتا ہے۔(سورۃ آلِ عمران: 134)ہم اگر اپنے گھروں، اداروں اور معاشرتی رویوں میں احسان، درگزر اور انصاف کو بنیاد بنا لیں تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے۔آئیے ہم سب آج عہد کریں کہ اپنی زندگی سے انتقامی سوچ کو ختم کریں گے۔ ہم اپنی طاقت، عہدے یا حیثیت کا استعمال دوسروں کو نقصان پہنچانے کے بجائے ان کی بہتری کے لیے کریں گے۔یاد رکھیں معافی دینے والا کبھی چھوٹا نہیں ہوتا اور انتقام لینے والا کبھی بڑا نہیں بن سکتا۔محبت، درگزر اور انسانیت وہ ستون ہیں جن پر قوموں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر ہم نے ان ستونوں کو گرنے دیا تو ہماری تاریخ صرف افسوس کے الفاظ میں لکھی جائے گی۔لہٰذا آئیے آج سے ایک نئی شروعات کریں نفرت کی بجائے محبت بانٹیں، دشمنی کی بجائے درگزر کریں اور تکبر کی بجائے عاجزی اپنائیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں دنیا میں کامیاب اور آخرت میں سرخرو بنا سکتا ہے.

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے