امریکہ کو طاقتور نہ اس کی فوج بناتی ہے، نہ اس کا بے پناہ سرمایہ اور نہ ہی اس کی ٹیکنالوجی۔ دنیا میں بہت سے ملک ہیں جو اپنے دفاع پر بلینز خرچ کرتے ہیں، جدید ترین ہتھیار رکھتے ہیں، اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بڑی بڑی ایجادات کرتے ہیں، مگر وہ پھر بھی کمزور، غیر مستحکم اور اندر سے کھوکھلے رہتے ہیں۔ امریکہ کی طاقت کا راز ان چیزوں میں نہیں بلکہ ایک ایسی بنیادی اور فیصلہ کن قدر میں ہے جو قوموں کو بربادی یا بلندی کی طرف لے جاتی ہے، اور وہ ہے قانون کی حکمرانی۔

رول آف لا کا مطلب صرف یہ نہیں کہ قانون کی کتابیں موجود ہوں، عدالتیں کھڑی ہوں اور ججز موجود ہوں۔ اصل معنی یہ ہیں کہ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہو۔ وہ سردار، وڈیرے، وزراء، ارب پتیوں یا بڑے خاندانوں کے لیے نرم اور غریب، کمزور یا لاچار انسان کے لیے سخت نہ ہو۔ قانون کا وزن برابر ہو، ترازو کسی ایک کے حق میں جھک نہ جائے۔ امریکہ اس ایک اصول پر کھڑا ہے اور یہی اس کی غیر متزلزل طاقت کا ستون ہے۔

امریکہ میں ایک عام بس ڈرائیور، ایک کلرک، ایک استاد، ایک دکان دار، اپنے حق کے لیے عدالت جاتا ہے اور صرف اس لیے انصاف حاصل کر لیتا ہے کہ قانون اس کا محافظ ہے۔ وہاں عدالتیں طاقتور کے دروازے پر سلامی نہیں دیتیں بلکہ انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو ایک عام شہری کو باوقار بناتی ہے اور باوقار شہری ہی باوقار قوم بناتے ہیں۔

ہم دنیا کی تاریخ دیکھیں تو ہر وہ قوم جو انصاف سے محروم ہوئی، خواہ وہ کتنی بڑی فوج رکھتی ہو یا کتنی دولت رکھتی ہو، اسے زوال نے جکڑ لیا۔ روم کی سلطنت، مغل سلطنت، سلطنت عثمانیہ، سب کے زوال کی جڑ انصاف کی کمزوری تھی۔ اور ہر وہ قوم جو انصاف کی حفاظت کرتی رہی، وہ باقی رہی، مضبوط رہی، اور دنیا کی رہنمائی کرتی رہی۔

حال ہی میں امریکہ کے ایک بڑے شہر میں ایک مسلمان نوجوان کا مئیر منتخب ہونا ایک حیرت انگیز اور تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اس نوجوان کے سامنے دنیا کی امیر ترین شخصیات کھڑی تھیں، سیاسی خاندانوں کی طاقت موجود تھی، سرمایہ دار حلقے اس کے خلاف متحد تھے، اور میڈیا اس کے گرد بیانیاتی دیواریں تعمیر کر رہا تھا، مگر قانون نے ان سب کوششوں کو بے اثر کر دیا۔

وہ جیتا کیونکہ وہاں ووٹ کی قدر دولت سے زیادہ ہے۔ وہاں ایک عام شخص کا فیصلہ سونے کے پہاڑ سے زیادہ وزن رکھتا ہے۔ وہاں طاقت کا منبع عوام ہیں، اور عوام کے فیصلے کو بدلنے کی جرات کسی میں نہیں ہوتی۔یہ واقعہ دنیا کے لیے پیغام ہے کہ حقیقی طاقت بندوق کی نالی سے نہیں نکلتی بلکہ عوام کے اعتماد سے جنم لیتی ہے۔ اور اعتماد تب پیدا ہوتا ہے جب انصاف زندہ ہو، قانون بیدار ہو اور ادارے آزاد ہوں۔

ہمارے ہاں مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، ذہانت کی کمی نہیں، محنت کی کمی نہیں۔ اللہ نے ہمارے ملک کو پہاڑوں سے لے کر دریا تک، زرخیز زمینوں سے لے کر بہترین انسانی صلاحیت تک ہر نعمت دی ہے۔ مگر ہم نے قانون کو کمزور کر کے اپنی تمام نعمتوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ہمارے ملک میں طاقتور شخص عدالت کو حکم دیتا ہے جبکہ کمزور عدالت سے انصاف مانگتے مانگتے مر جاتا ہے۔ یہاں دلیل سے زیادہ سفارش کا بول بالا ہے۔ یہاں قانون کتابوں میں ہے، زندگی میں نہیں۔

جس ملک میں پولیس طاقتور کے لیے ڈھال اور کمزور کے لیے خوف بن جائے، وہاں ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔ جس ملک میں عدالتیں انصاف دینے کے بجائے طاقتور کے دباؤ پر فیصلے سنانے لگیں، وہاں قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔ ہم اسی بربادی کے کنارے پر کھڑے ہیں۔قانون کی برابری ایک قوم کو آسمان تک لے جاتی ہے، اور قانون کی نا برابری قوموں کو زمین میں دفن کر دیتی ہے۔ دنیا کی کوئی فوج، کوئی دولت، کوئی ٹیکنالوجی اس بربادی کو نہیں روک سکتی۔

امریکہ کے شہری اپنی رائے کی قدر جانتے ہیں۔ وہ خود کو فیصلوں کا مالک سمجھتے ہیں، غلام نہیں۔ یہی شعور انہیں مضبوط بناتا ہے۔ جب ایک قوم اپنے فیصلوں کی مالک نہ رہے، تو باقی سب کچھ صرف نمائش رہ جاتا ہے۔اگر ہم آج عہد کر لیں کہ قانون کو طاقتور بنانا ہے، طاقتور کو نہیں، تو یہ قوم اٹھ سکتی ہے۔ ہمارے شہر بدل سکتے ہیں، ادارے درست ہو سکتے ہیں، مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ عروج ممکن ہے، اور بہت جلد ممکن ہے۔سو بات واضح ہے، قومیں توپوں، میزائلوں اور ایٹم بموں سے نہیں بنتیں۔ قومیں انصاف، قانون اور اخلاقی وقار سے بنتی ہیں۔ جس دن پاکستان میں ایک عام شخص بغیر سفارش کے انصاف حاصل کر لے گا، اسی دن یہ ملک تاریخ کے نئے دور میں داخل ہو جائے گا۔ اور وہ دن دور نہیں، اگر ہم اسے قریب لے آئیں۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے