پشاور پریس کلب میں ٹرانس جینڈر ایسوسی ایشن کی رہنما آرزو خان، ٹرانس جینڈر رائٹس ایکٹیوسٹ صوبیہ خان المعروف بے بو اور اقبال پلازہ میں مقیم خواجہ سراؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پشاور پولیس، خصوصاً سی سی پی او پشاور ڈاکٹر میاں سعید کی جانب سے اقبال پلازہ کے باہر لگائے گئے ناکے کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ ناکہ سیکورٹی یا منشیات فروشی کے خلاف نہیں بلکہ مبینہ طور پر خواجہ سراؤں کو ہراساں کرنے اور ان کی روزگار چھیننے کا ذریعہ بن چکا ہے۔

آرزو خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پشاور پولیس خواجہ سراؤں کے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کر رہی ہے۔ اقبال پلازہ کے باہر لگائے گئے ناکے پر موجود اہلکار ڈانس پارٹیاں بکنگ کرنے کے لیے آنے والے افراد کو بھی گرفتار کر کے ان پر مقدمات قائم کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں خواجہ سراؤں کا واحد ذریعہ معاش متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب وہی اقبال پلازہ پہلے فحاشی اور منشیات کا مرکز تھا تو خواجہ سراؤں نے پولیس کے تعاون سے وہاں صفائی کروائی، لیکن اب انہی پر بے جا پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس اہلکار اقبال پلازہ میں گھس کر خواجہ سراؤں سے زبردستی رقم چھینتے ہیں، ان کے پرس کی تلاشی لیتے ہیں اور جسے جو ملتا ہے ساتھ لے جاتا ہے۔ شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آرزو خان نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے کپڑے اُتار کر ان کی جنس چیک کی جاتی ہے، جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بارہا اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا مگر ہر بار ٹال مٹول اور "لال جھنڈی” دکھا کر واپس کر دیا گیا۔

بے بو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پشاور میں ٹرانس جینڈر کے نام پر قائم چار ڈیسکوں پر غیر متعلقہ افراد کو تعینات کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے خواجہ سراؤں کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹرانس جینڈر ڈیسکوں پر ٹرانس جینڈر افراد کو ہی تعینات کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پورے صوبے میں خواجہ سراؤں کو ہراساں، بلیک میل اور بے گھر کیا جا رہا ہے، جبکہ ان کے نام پر نوکریوں کا کوٹہ موجود ہونے کے باوجود انہیں ملازمتیں فراہم نہیں کی جاتیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ سراؤں کی زندگی پہلے ہی مشکلات سے بھری ہے، ایسے میں اقبال پلازہ پر لگایا گیا ناکہ ان کی روزی روٹی چھیننے کے مترادف ہے۔ مطالبہ کیا گیا کہ ایسے پولیس اہلکار تعینات کیے جائیں جو جرائم پیشہ عناصر کی شناخت کر سکیں، نہ کہ بے گناہ خواجہ سراؤں اور ان کے پاس آنے والوں کو نشانہ بنائیں۔

آرزو خان اور صوبیہ خان نے آئی جی خیبر پختونخوا سے مطالبہ کیا کہ وہ معاملے کا نوٹس لیں، پولیس میں موجود ’کالی بھیڑوں‘ کا محاسبہ کریں، اور ٹرانس جینڈر برادری کو تحفظ اور انصاف فراہم کریں۔ انہوں نے زور دیا کہ تعلیم یافتہ خواجہ سراؤں کو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی کیا جائے تاکہ وہ اپنے مسائل خود بہتر طور پر حل کر سکیں۔

پریس کانفرنس میں شریک خواجہ سراؤں نے حکام سے اپیل کی کہ انہیں روزگار کا قانونی اور محفوظ موقع دیا جائے، ناکوں کے نام پر ہراسانی بند کی جائے، اور انہیں معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے