
یہ اُس دور کی بات ہے جب کراچی اپنی روایتی افراتفری، شدید گرمی اور بدترین لوڈشیڈنگ کے باعث ایک جلتے ہوئے تنور کی مانند محسوس ہوتا تھا۔ 2006 یا 2007 کا سال تھا، موسم اتنا گرم تھا کہ گھروں کے اندر بیٹھنا ممکن نہیں رہتا تھا، اور بجلی گھنٹوں غائب رہتی تھی۔ جن علاقوں میں میں رہتا تھا، وہاں دن ہو یا رات، لوگ اندھیرے میں ہاتھ سے پنکھا جھلتے ہوئے وقت گزارنے پر مجبور تھے۔ ایسے حالات میں کبھی کبھی باہر نکلنا ہی بہتر لگتا تھا، شاید تھوڑی ہوا چل جائے یا کچھ دیر ذہن ہلکا ہو جائے۔
ایک ایسی ہی رات کو میں اپنے کزن کے ساتھ روڈ کراس کرکے ممتاز منزل کی طرف جا رہا تھا۔ شہر میں رات کے دس بج رہے تھے، مگر کراچی میں یہ وقت دن کے اختتام کا نہیں بلکہ ایک نئی سرگرمی کے آغاز کا ہوتا تھا۔ اس وقت لوگ اکثر کوئٹہ ہوٹل یا دوسرے ڈھابوں پر رات دیر تک بیٹھے گپیں لگاتے تھے۔ ماحول میں گرمی بھی تھی اور تھکن بھی، مگرکراچی شہر کی اپنی ایک الگ زندگی تھی۔
ہم دونوں عام سی گفتگو کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ اچانک ایک موٹر سائیکل ہمارے قریب آکر رُکی۔ دونوں پولیس اہلکار تھے، جن کے آنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ سمجھ آگیا کہ اب پوچھ گچھ شروع ہونے والی ہے۔ کراچی میں اُس وقت پولیس کا رویہ ایسا ہوتا تھا کہ عام آدمی اُنہیں دیکھ کر خود کو مجرم سمجھنے لگتا تھا، چاہے اس نے کچھ غلط کیا ہو یا نہیں۔
ایک اہلکار موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور دوسرا پیچھے بیٹھا تھا۔ پیچھے بیٹھے ہوئے نے دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے کہا: “یہ دونوں کل رات بھی یہاں دیکھے تھے، لگتا ہے کسی سے پیسے چھین رہے تھے۔” اس الزام نے ایک لمحے میں سارا ماحول بدل دیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے میرے اندر آگ لگا دی ہو۔ بغیر کسی وجہ کے، بغیر کسی ثبوت کے مجھ پر اتنا سنگین الزام لگانا ناانصافی تھی۔
میں نے غصے میں جواب دیا کہ آپ یہ کیسی بات کر رہے ہیں؟ ہم اپنے کام سے جا رہے ہیں، کوئی جرم نہیں کیا۔ مگر پولیس اہلکار نے میری بات کو نظر انداز کیا اور تفتیشی انداز میں مزید سوالات شروع کر دیے۔ اُس نے میرا والٹ لے لیا اور اس میں موجود چیزیں چیک کرنے لگا، جیسے وہ پہلے سے طے کر چکا ہو کہ ہم ہی مجرم ہیں۔
میری خوش قسمتی تھی کہ اُس وقت والٹ میں میرے والد کا ایک پرانا پولیس کارڈ موجود تھا۔ اہلکار نے کارڈ نکالا اور شک بھری نظروں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ یہ میرے والد ہیں، جو اسلام آباد میں تعینات ہیں۔ اُس نے فوراً ضد کے ساتھ کہا کہ نہیں، تم جھوٹ بول رہے ہو۔ اس کے رویے میں تحقیر بھی تھی اور دھونس بھی۔
میں نے اُس کی شکایت کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے کہا کہ ٹھیک ہے، اگر یقین نہیں آتا تو میں ابھی انہیں کال ملا دیتا ہوں۔ حقیقت یہ تھی کہ میرے والد اُس وقت گاؤں میں تھے، لیکن میں نے ایک رینڈم نمبر ملا کر ایسے ظاہر کیا جیسے میں اُنہیں کال کر رہا ہوں۔ میری یہ حرکت پولیس والے کو تھوڑا ہکا بکا چھوڑ گئی۔
جیسے ہی میں کال ملانے لگا، پیچھے بیٹھے ہوئے پولیس والے نے اپنے ساتھی کے کان میں آہستہ سے کہا: “یہ تو کسی SHO صاحب کا بیٹا لگتا ہے، چھوڑو یار، مسئلے میں کیوں پڑیں۔” چند لمحوں بعد انہوں نے تیزی سے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور موقع سے ہٹ گئے، جیسے ہم کبھی ان کی نظر میں آئے ہی نہ ہوں۔
اگلے دن جب میں اپنے علاقے میں تھا، وہی پولیس اہلکار پھر موٹر سائیکل پر آئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی میں ان کے قریب سے گزرا، میں نے آداب کے طور پر سلام کیا۔ انہوں نے فوراً پہچان لیا اور بڑے انداز سے کہا: “ارے، یہ تو SHO صاحب کے بیٹے ہیں، ماشاءاللہ!” ان کا انداز کل رات کی دھونس سے یکسر مختلف تھا، بلکہ جھوٹی عزت اور بناوٹ سے بھرپور تھا۔
اس تبدیلی نے مجھے بہت کچھ سمجھا دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارے معاشرے میں انسان کی عزت، اس کی سچائی اور اس کا کردار اس وقت تک بے معنی ہیں جب تک اس کے پیچھے کوئی طاقت یا اثر و رسوخ نہ ہو۔ یہاں کمزور کی بات کو سنا نہیں جاتا اور طاقتور کی غلطی کو بھی صحیح سمجھ لیا جاتا ہے۔
کل رات ہم ان کی نظروں میں ممکنہ چور تھے، مگر اگلے دن وہی پولیس اہلکار ہمیں عزت دے رہے تھے، صرف اس لیے کہ انہیں لگا کہ ہم کسی افسر کے بیٹے ہیں۔ اس منافقت نے میرے دل میں بہت بے چینی پیدا کی۔ میں سوچتا رہا کہ اگر میرے پاس وہ کارڈ نہ ہوتا تو شاید مجھے تھانے لے جایا جاتا، مجھ پر جھوٹا مقدمہ بنا دیا جاتا اور میں بھی ان گنت بے گناہ افراد کی فہرست میں شامل ہو جاتا۔
ہم اکثر سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے، مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ طاقت اور سفارش وہ ترازو ہیں جن پر اکثر انصاف کا وزن ہوتا ہے، اور غریب یا لاچار صرف اسی وجہ سے نشانہ بنتا ہے کہ اس کے لیے بولنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔
یہ واقعہ میرے دل میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا۔ اس نے مجھے سکھایا کہ انسان کو کبھی اپنی طاقت، عہدے یا تعلقات پر غرور نہیں کرنا چاہیے۔ اگر نظام میں انصاف کمزور ہوجائے تو معاشرہ تباہ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ اور یہاں بدقسمتی سے انصاف کمزور اور ظلم طاقت ور ہے۔
مجھے اس بات کا بھی احساس ہوا کہ جو لوگ ہر روز سڑکوں پر پولیس کی غیر ضروری پوچھ گچھ اور دھونس کا شکار ہوتے ہیں، اُن کا درد کہیں زیادہ بڑا ہے۔ وہ نہ لڑ سکتے ہیں، نہ اپنی صفائی میں کچھ کہہ سکتے ہیں، اور نہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ غلط نہیں ہیں۔
میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں بچ گیا، مگر ساتھ ہی اللہ سے دعا کی کہ وہ اُن سب کا محافظ ہو جو کسی سفارش یا تعلق کے بغیر اس معاشرے میں انصاف کے بھوکے رہتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کمزور کا سہارا صرف اور صرف اللہ ہی ہوتا ہے، باقی سب دکھاوا ہے۔
اس دن سے میں نے ہمیشہ ایک سبق یاد رکھا کہ انسانیت کا احترام سب سے زیادہ ضروری ہے۔ کسی کے ساتھ اس لیے اچھا سلوک نہ کریں کہ وہ بااثر ہے، بلکہ اس لیے کریں کہ وہ انسان ہے۔ ورنہ معاشرہ صرف طاقتوروں کا اکھاڑا بن جاتا ہے۔
میں آج بھی یہی سوچتا ہوں کہ اُس رات میں بچ گیا تھا، مگر کتنے ایسے لوگ ہیں جو نہیں بچ پاتے۔ اللہ ہی ان سب کا محافظ ہے، کیونکہ یہی حقیقت ہے کہ غریب کے لیے آخر میں اللہ ہی مالک اور سہارا ہوتا ہے۔
![]()