صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کی ایڈیٹنگ میں مبینہ رد و بدل کے الزامات نے بی بی سی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ برطانیہ کے اس مشہور نشریاتی ادارے کو اُس وقت بڑا دھچکا لگا جب اس کے دو اعلیٰ عہدیدار، ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور ہیڈ آف نیوز ڈیبورہ ٹرنَس نے اتوار کے روز استعفیٰ دے دیا۔ ان استعفوں نے نہ صرف ادارے کے اندرونی تنازعات کو بے نقاب کیا بلکہ بی بی سی کو دہائیوں کے سب سے بڑے بحران میں دھکیل دیا ہے۔

اندرونی رپورٹ اور لیک اسکینڈل

یہ بحران اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب سابق مشیر مائیکل پریسکاٹ کی ایک اندرونی رپورٹ ڈیلی ٹیلی گراف کو لیک ہوئی۔ اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا تھا کہ بی بی سی کی ایڈیٹوریل ٹیم میں ادارہ جاتی سطح پر بائیں بازو کی جانب جھکاؤ (Left-leaning bias) پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بی بی سی نے اپنی کوریج میں، خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل-حماس تنازع اور ٹرانس جینڈر امور سے متعلق خبروں میں جانبداری کا مظاہرہ کیا۔

ٹرمپ تقریر کی ایڈیٹنگ پر تنازع

سب سے سنگین الزام ایک پینوراما دستاویزی فلم سے متعلق ہے جو نومبر 2024 کے امریکی صدارتی انتخاب سے قبل نشر ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق اس ڈاکیومنٹری میں ٹرمپ کی تقریر کے دو مختلف حصوں کو اس طرح جوڑا گیا کہ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل فسادات کی ترغیب دے رہے ہوں۔ یہ فلم ایک آزاد پروڈکشن کمپنی نے تیار کی تھی۔

ٹرمپ کے وکلا نے بی بی سی کو 14 نومبر تک فلم واپس لینے یا کم از کم 1 ارب ڈالر کے ہرجانے کے مقدمے کے لیے تیار رہنے کی دھمکی دی ہے۔ بی بی سی نے تسلیم کیا کہ ایڈیٹنگ میں “غلط فیصلے” کیے گئے، تاہم اس نے کہا کہ ادارہ اب بھی اپنے ردِعمل پر غور کر رہا ہے۔

ادارہ قیادت کے بغیر، فنڈنگ کے بحران میں داخل

استعفوں کے بعد بی بی سی اس وقت بغیر قائدت کے ہے، اور یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہوا ہے جب برطانوی حکومت بی بی سی کے چارٹر اور فنڈنگ ماڈل کا ازسرِنو جائزہ لے رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ادارہ اب ایسے نازک دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں اس کی بقاء کا دار و مدار عوامی اعتماد پر ہے۔

فنڈنگ ماڈل پر تنقید

بی بی سی کی مالی معاونت بنیادی طور پر ٹی وی لائسنس فیس کے ذریعے ہوتی ہے، جو ہر ٹی وی رکھنے والے گھرانے سے وصول کی جاتی ہے۔ تاہم حتیٰ کہ ادارے کے حامی بھی مانتے ہیں کہ موجودہ نظام پرانے وقتوں کا ہے، کیونکہ اب ناظرین بڑی تعداد میں نیٹ فلکس، یوٹیوب اور سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارمز کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔

اعتماد ہی بی بی سی کا سب سے بڑا اثاثہ

سابق وزیرِ اطلاعات اور کنزرویٹو رکنِ پارلیمنٹ جان وہٹنگڈیل نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا:> “بی بی سی کا سب سے قیمتی سرمایہ اس پر عوام کا اعتماد ہے۔ اگر ناظرین اور سامعین کو اس کے غیرجانبدار اور درست خبروں پر یقین نہ رہے، تو یہ ادارے کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔”میڈیا ماہر کلئیر اینڈرز نے کہا کہ ادارے کے لیے ایک نیا قائد جلد از جلد مقرر کیا جانا ضروری ہے تاکہ “اس اعتماد کو بحال کیا جا سکے جو بی بی سی کے وجود کے لیے ناگزیر ہے۔”

دنیا کا قدیم اور معتبر نشریاتی ادارہ آزمائش میں

میں قائم ہونے والا بی بی سی دنیا کے قدیم ترین میڈیا اداروں میں شمار ہوتا ہے اور اس کی صحافتی ساکھ عالمی سطح پر مسلمہ ہے۔ ادارہ اس وقت 42 زبانوں میں نشریات پیش کر رہا ہے اور ٹی وی، ریڈیو کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی انگلش نیوز ویب سائٹ بھی چلا رہا ہے۔

تاہم تازہ بحران نے بی بی سی کی غیرجانبداری، انتظامی ڈھانچے اور عوامی اعتماد کے مستقبل پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے