
شمیم شاہد
افغانستان اور پاکستان کو اس المناک موڑ تک پہنچانے والے تشویشناک حالات اور الزامات مکمل طور پر خیالی ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر حقیقت پر مبنی۔ بلکہ یہ مبالغہ آرائی، سیاسی چالوں اور عشروں پر محیط بداعتمادی کا نتیجہ ہیں — ایک دوسرے کے مخالف عناصر کو پناہ دینے کے الزامات حتیٰ کہ خلوص نیت سے کی جانے والی سفارتی کوششوں کو بھی خطرہ سمجھنا، دونوں اطراف کا رویہ رہا ہے۔بدقسمتی سے، دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ، میڈیا، چاہے روایتی ہو یا سوشل ، نے حالات کو پُر سکون بنانے کی بجائے، دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان دشمنی کی آگ کو مزید بھڑکانے میں کردار ادا کیا۔مخصوص ذہنیت نے مختلف طریقوں سے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے حملوں کو اس جواز پر درست ٹھہرانے کی کوشش کی کہ افغانستان بھارت کے ساتھ روابط استوار کر رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ کسی بھی نوعیت کے افغان تعلقات پر پاکستان کی دیرینہ نفسیاتی تشویش، چاہے وہ صرف سفارتی ہی کیوں نہ ہو ایک ایسی سوچ کی عکاس ہے جو اب بھی شک و شبہے پر مبنی ہے، تاریخی حقائق کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرنے کی بجائے یہ خدشات کوئی نئے نہیں۔ سابق طالبان حکومت کے خاتمے (نومبر 2001) کے بعد بھی پاکستان نے افغانستان میں بھارتی سرگرمیوں ،خصوصاً ترقی، تعلیم اور صحت کے منصوبوں میں شرکت پر اعتراضات اٹھائے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دورِ حکومت میں بھی پاکستانی حکام اور میڈیا اہلکاروں نے بارہا بھارت کے ساتھ افغانستان کے تعلقات پر سوالات اٹھائے۔ لیکن حامد کرزئی اور ان کے جانشین ڈاکٹر اشرف غنی نے بارہا اس تاثر کی تردید کی کہ بھارت افغانستان میں پاکستان کی جگہ لے سکتا ہے۔ایک موقع پر اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں میڈیا کے سوالات کے جواب میں حامد کرزئی نے کہا تھا:“ہم ایک جسم ہیں مگر دو دل رکھتے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ اکثریت افغان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔”ڈاکٹر اشرف غنی کا بھی مؤقف اس سے ملتا جلتا رہا۔تاہم اصل ناکامی کی وجہ سیاست دانوں سے زیادہ اُن اداروں کی خاموشی ہے جنہیں بولنا چاہیے تھا۔ میڈیا نے سوال اٹھانے کی بجائے حکمرانوں کے بیانیے کو تقویت دی ۔ان حکمرانوں کے جو خوف اور تقسیم پر پنپتے رہے، بجائے اس کے کہ وہ ان کہانیوں کو چیلنج کرتے، نے مزید دراڑیں پیدا کیں۔بدقسمتی سے طالبان (امارتِ اسلامی) کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد آزادی اظہار کی آوازوں کو خاموش کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے عوام طویل عرصے سے باہمی مسائل پر گفتگو اور بحث میں مصروف رہے ہیں، مگر اب میڈیا پر پابندیوں نے اس عمل کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ طالبان نے میڈیا پر پابندی لگائی، تو اسے پاکستان میں میڈیا اور صحافیوں کو درپیش پابندیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک میں میڈیا، سول سوسائٹی، رائے عامہ کے رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن یکساں رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان تمام رکاوٹوں کو فوراً ختم کیا جانا چاہیے۔اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک اپنی مشترکہ کہانیوں کو دوبارہ تحریر کریں — نہ کہ پراکسی جنگوں یا سفارتی فریب کاری کے ذریعے، بلکہ حوصلے، باہمی احترام، اور اس ادراک کے ساتھ کہ ایک کی ترقی دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔پرانے نظریات اپنے ہی بانیوں کو نگل چکے ہیں، اب صرف ایک راستہ بچا ہے ۔ اُن سے اوپر اُٹھنے کا۔دنیا بدل چکی ہے؛ پرانے دشمن اب دوست بن چکے ہیں، اور “دشمنی” کا لفظ اپنی معنویت کھو چکا ہے۔ اب جنگیں اور محاذ آرائیاں سیاسی و سفارتی حکمت عملیوں کے ذریعے لڑی جاتی ہیں۔اپنے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی بجائے، دونوں ممالک کے حکمرانوں کو اپنی بنیادی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا — یعنی اپنی قوم کو عزت و وقار کے ساتھ دو وقت کی روٹی فراہم کرنا۔
![]()