ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والے عمائدین نے اتوار کے روز پشاور پریس کلب میں ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے ضلعی دفاتر کی منتقلی میں صوبائی حکومت کی غیر سنجیدگی اور مسلسل تاخیر پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ پریس کانفرنس معراج خالد، خیبر پختونخوا یوتھ اسمبلی کے وزیر برائے انسانی حقوق ناصر علی، اور سہیل عباس کی مشترکہ قیادت میں منعقد ہوئی۔ عمائدین نے کہا کہ 1973 میں ایجنسی کا درجہ حاصل کرنے والی اورکزئی ایجنسی کو جب باضابطہ طور پر بندوبستی علاقہ قرار دیا گیا، تو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ضلعی اور انتظامی دفاتر کو اورکزئی منتقل کیا جائے گا۔ تاہم 50 سال گزرنے کے باوجود اپر اور لوئر اورکزئی ڈسٹرکٹ کے تمام بڑے انتظامی دفاتر تاحال ہنگو ہی میں موجود ہیں۔

معراج خالد کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹریز کی جانب سے تین مرتبہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے باوجود ضلعی دفاتر کی اورکزئی منتقلی ابھی تک عمل میں نہیں لائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ “اورکزئی ڈسٹرکٹ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا رویہ بند ہونا چاہیے، ہم پاکستان کے ساتھ ہیں اور دہشت گردی کے دوران بھی ہم نے ہی سب سے پہلے ملک کا جھنڈا بلند رکھا۔”

ناصر علی نے کہا کہ آٹھ لاکھ آبادی پر مشتمل ضلع اورکزئی آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور معمولی سے دستخط کے لیے بھی مقامی لوگوں کو ہنگو جانا پڑتا ہے، جبکہ یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ معاشی طور پر کمزور ہے۔ انہوں نے کہا کہ “علاقے کے ایم این اے اور ایم پی ایز بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور عوام کے مسائل پر کوئی موثر آواز نہیں اٹھا رہے۔”

عمائدین نے مزید کہا کہ اورکزئی واحد ڈسٹرکٹ ہے جہاں دہشت گردی نے سب سے پہلے ڈیرے ڈالے، اور مقامی عوام نے بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا، مگر اس کے باوجود وفاق اور صوبائی حکومتیں اورکزئی کو اس کا جائز حق دینے میں ناکام رہی ہیں۔

پریس کانفرنس میں حکومت سے 7 جنوری 2026 تک تمام انتظامی دفاتر بشمول ڈپٹی کمشنر آفس، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور دیگر اداروں کو ہنگو سے ضلع اورکزئی منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ عمائدین نے کہا کہ اگر اس مطالبے پر عمل درآمد نہ ہوا تو وہ شدید احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے اور عوام فیصلہ کریں گے کہ اسلام آباد کا گھیراؤ کریں یا خیبر پختونخوا حکومت کا۔

پریس کانفرنس کے بعد عمائدین نے پشاور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور مرکزی و صوبائی حکومتوں کو ضلعی مسائل نظرانداز کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے