
عوامی نیشنل پارٹی نے صوبے میں گورنر راج سے متعلق جاری بحث اور اے این پی کی مبینہ مشاورت کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس معاملے پر پارٹی کو تاحال کسی سطح پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ پارٹی قیادت نے کہا کہ اے این پی ایک جمہوری، عدم تشدد اور انسانی وقار پر مبنی سیاسی تحریک ہے، جسے خدائی خدمتگار تحریک کے نظریات وراثت میں ملے ہیں، اس لیے منتخب اداروں کی معطلی سے وہ اصولی طور پر اتفاق نہیں کرتی۔
سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ پشتون قوم نے ہمیشہ نوآبادیاتی جبر کے خلاف باوقار مؤقف اپنایا ہے اور اے این پی کا نظریہ امن، برداشت اور بین المذاہب ہم آہنگی کی بنیاد پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی پشتون قوم پرستی کو امن، ترقی اور انصاف کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھتی ہے، اسی لیے 1986 سے لے کر آج تک اے این پی جمہوری سوشلزم اور مضبوط وفاقیت کی آواز بنی ہوئی ہے۔
دوسری جانب مرکزی ترجمان احسان اللہ خان نے سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کو خیبر پختونخوا کا گورنر نامزد کیے جانے کی افواہوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ محض حکومت کے مرکزی حصہ داروں کی ذہنی اختراع ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امیر حیدر ہوتی آئندہ انتخابات میں پارٹی کے اہم امیدوار ہیں اور اس حوالے سے اے این پی کی قیادت سے کسی قسم کی کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔
ترجمان نے کہا کہ صوبے کے مسائل گورنر راج یا کسی عبوری انتظام سے حل نہیں ہوں گے بلکہ بہتر گورننس ہی مسئلوں کا ٹیکٰساس حل ہے۔ انہوں نے صوبائی حکومت کو مشورہ دیا کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے اپنی کارکردگی بہتر بنائے۔ احسان اللہ خان کے مطابق صوبے میں 32 لاکھ ووٹ پی ٹی آئی کے حق میں جبکہ 70 لاکھ اس کے خلاف پڑے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اکثریت نے بانی چیئرمین کی رہائی یا بیانیے سے اتفاق نہیں کیا۔
اے این پی نے ایک بار پھر حکومت کو یاد دہانی کرائی کہ اہم قومی فیصلوں میں اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا جمہوری روایت ہے، اور گورنر راج جیسے اقدامات پر قیاس آرائیوں کے بجائے پارلیمانی اداروں کو مضبوط کیا جانا چاہیئے۔
![]()