

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل خان آفریدی کی زیرِ صدارت انصاف یوتھ ونگ کے صوبائی، ریجنل اور ضلعی عہدیداران کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبائی وزیر بلدیات مینا خان آفریدی، سابق معاون خصوصی شفقت آیاز اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ سیاسی و آئینی صورتحال میں نوجوانوں پر غیر معمولی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین و قانون کی بالادستی، حقیقی آزادی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جاری قومی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، اور انصاف یوتھ ونگ کو ہر لمحہ فعال، منظم اور تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ جب بھی قیادت کی جانب سے کال دی جائے، تمام کارکن یکجہتی، نظم و ضبط اور بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں نکلیں۔


وزیراعلیٰ آفریدی نے بتایا کہ اپنے قائد عمران خان سے ملاقات کے لیے صوبائی حکومت نے پنجاب اور وفاقی حکومتوں کو متعدد مراسلے ارسال کیے، وزیر اعظم سے رابطہ کیا اور چیف جسٹس کو بھی خط بھیجا، لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین ججز کے واضح احکامات کے باوجود ملاقات کی اجازت نہ دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود پوری رات اڈیالہ جیل کے باہر موجود رہے، مگر کسی ادارے نے دو منٹ کی ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی، جو جمہوری اقدار اور بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے مذاکرات اور احتجاج، دونوں کا اختیار تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے سپرد کر دیا ہے، اس لیے تمام ذمہ داران اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی سے نبھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے لیے عہدہ نہیں بلکہ نظریہ اہم ہے، اور وہ کسی دباؤ یا نقصان کے خوف سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔
وزیراعلیٰ نے موجودہ وفاقی حکومت کی معاشی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکمرانی کے بلند و بانگ دعوے کرنے والوں کے خلاف خود آئی ایم ایف نے چارج شیٹ پیش کر دی ہے۔ اگر موجودہ دور کی کارکردگی کا موازنہ عمران خان دور کی گورننس سے کیا جائے تو فرق خود بخود واضح ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن سب سے بڑا چیلنج ہے، کیونکہ امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ تعلیم کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ایٹا کے ذریعے چھ ہزار اساتذہ بھرتی کیے جا چکے ہیں جبکہ مزید نو ہزار اساتذہ کی بھرتی کی تیاریاں جاری ہیں۔ ان بھرتیوں میں میرٹ اور شفافیت پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔
وزیراعلیٰ نے دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ آئین، قانون، انصاف اور آزادیٔ اظہار کے تحفظ کی جدوجہد ہر صورت جاری رہے گی۔
![]()