سوات: ٹرانس ایکشن کمیونٹی آرگنائزیشن خیبر پختونخوا کی چیئرپرسن فرزانہ علی اور وائس چیئرپرسن ماہی گل نے کہا ہے کہ سوات میں فحاشی کے نام پر خواجہ سراؤں کی گرفتاری اور انہیں ضلع بدر کرنے کے اقدامات قانون، آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا میں تقریباً 75 ہزار خواجہ سراء بنیادی حقوق، تحفظ اور معاشرتی قبولیت سے محروم ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ انہیں ہراساں کرنے کے بجائے تعلیم، روزگار اور ہنرمندی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

یہ بات انہوں نے سوات پریس کلب میں درجنوں خواجہ سراؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ فرزانہ علی نے کہا کہ گزشتہ روز مینگورہ کے علاقے شاہدرہ میں شہریوں اور عوامی نمائندوں نے پولیس کی موجودگی میں خواجہ سراؤں پر فحاشی کے الزامات لگاتے ہوئے ان کے بالاخانوں پر چڑھائی کی کوشش کی، جس دوران فائرنگ کا الزام لگا کر تین بے گناہ خواجہ سراؤں کو گرفتار کیا گیا جبکہ ایک پر تشدد کے بعد پستول برآمد کرنے کا دعویٰ بھی سامنے لایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام اقدامات غیر قانونی اور غیر انسانی ہیں، اور اس واقعے کی فوری جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سرا خود کسی کے گھر نہیں جاتے بلکہ لوگ خود ان کے بالاخانوں کا رخ کرتے ہیں، اس کے باوجود الزام ہمیشہ انہی پر لگا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کی تنظیم کسی بھی غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث افراد کی حمایت نہیں کرتی، لیکن بے گناہ اور مجبور خواجہ سراؤں کو نشانہ بنانا سراسر ناانصافی ہے۔

پریس کانفرنس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ سوات میں 950 سے زائد رجسٹرڈ خواجہ سرا موجود ہیں، جنہیں نہ ان کے گھر والے قبول کرتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ انہیں مناسب مقام دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ انہیں قانونی تحفظ فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔

آخر میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر کوئی خواجہ سرا جرائم یا غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، لیکن بلاجواز گرفتاری، ہراسانی اور ضلع بدری کسی بھی صورت قبول نہیں اور ٹرانس ایکشن کمیونٹی اس کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرے گی۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے