نئی امیگریشن پالیسی برطانیہ کے اندر پناہ، نقل مکانی، اور فیملی ری یونین کے پورے نظام کو متاثر کرنے جارہی ہے۔ حکومتی مؤقف یہ ہے کہ موجودہ قوانین برسوں سے مؤثر طریقے سے کام نہیں کر رہے تھے، اسی لیے اب ان میں سختی اور وضاحت دونوں کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات نظام کو شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ اسے زیادہ مؤثر بھی بنائیں گے۔

پالیسی کے سب سے نمایاں حصوں میں سے ایک وہ تبدیلی ہے جس کے تحت پناہ گزینوں کی جانب سے اپنے قریبی رشتہ داروں کو برطانیہ میں اسپانسر کرنے کے قواعد سخت کر دیے جائیں گے۔ پہلے جہاں خاندان کے دوبارہ اتحاد کے امکانات نسبتاً آسان تھے، اب یہ راستہ مزید مشکل بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس تبدیلی سے ہزاروں خاندان متاثر ہو سکتے ہیں جو برسوں سے اپنے پیاروں کے ساتھ دوبارہ ملنے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔

ماہرین کے مطابق نئی شرائط نہ صرف طویل دستاویزات، ثبوتوں اور مالی اہلیت کا تقاضا کریں گی بلکہ فیصلہ سازی کے عمل میں بھی زیادہ سختی نظر آئے گی۔ اس کا اثر خاص طور پر ان پناہ گزینوں پر ہوگا جن کے خاندان جنگ زدہ یا غیر محفوظ ممالک میں رہ رہے ہیں اور وہ جلد از جلد انہیں محفوظ ماحول میں لانا چاہتے ہیں۔

فیملی ری یونین کے لیے شریکِ حیات، بچوں اور دیگر منحصر افراد کو لانے کی اجازت تو پہلے بھی موجود تھی، مگر اب ان تمام کیٹیگریز پر مزید جانچ پڑتال ہوگی۔ ہر درخواست کو نہ صرف قانونی بلکہ اقتصادی نقطۂ نظر سے بھی پرکھا جائے گا تاکہ حکومت اس بات کا یقین کر سکے کہ برطانیہ آنے والے افراد ریاست پر اضافی بوجھ نہیں بنیں گے۔

اس پالیسی کا ایک بڑا مقصد ثانوی نقل مکانی کو کم کرنا بتایا جارہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بہت سے پناہ گزین ایک ملک میں تحفظ حاصل کرنے کے بعد دوسرے ملک کا رخ کرتے ہیں، جس سے امیگریشن نظام پر غیر ضروری دباؤ پڑتا ہے۔ اس مسئلے کو روکنے کے لیے فیملی ری یونین جیسے راستوں میں سختی لائی جا رہی ہے۔

ثانوی نقل مکانی کا یہ رجحان خاص طور پر ان پناہ گزینوں میں دیکھا گیا ہے جو پہلے کسی یورپی ملک میں پناہ لیتے ہیں، مگر بعد میں بہتر سہولیات یا روزگار کے مواقع کے لیے برطانیہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ حکومتی نقطۂ نظر کے مطابق یہ عمل نظام کے بنیادی مقصد کے خلاف جاتا ہے۔

اسی لیے اس بار اقدامات کا رخ مکمل طور پر نفاذ اور روک تھام پر مرکوز ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ پناہ کا نظام صرف اُن لوگوں تک محدود رہے جو حقیقی خطرات، ظلم و ستم یا تشدد سے بھاگ رہے ہیں، نہ کہ اُن افراد کے لیے جو بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں یورپ کے اندر اندر حرکت کرتے رہتے ہیں۔

پالیسی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ خاندانوں کو دوبارہ ملانا انسانی حق ہے، اور اس پر غیر معمولی پابندی لگانا غیر منصفانہ ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ایسی تبدیلیاں سماجی مسائل کو کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا سکتی ہیں، کیونکہ خاندان سے دوری پناہ گزینوں کی ذہنی صحت پر شدید اثر ڈالتی ہے۔

کچھ تنظیمیں یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ حکومت کو پناہ گزینوں کے اقتصادی کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بہت سے پناہ گزین اپنی محنت اور صلاحیتوں کے ذریعے برطانیہ کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان کے خاندانوں کو دور رکھنا ان کی کارکردگی اور سماجی انضمام دونوں کو متاثر کر سکتا ہے۔

تاہم حکومت اس مؤقف پر قائم ہے کہ نئی پالیسی عوامی مفاد میں ہے اور اس سے امیگریشن سسٹم مستحکم ہوگا۔ حکومتی بیانات میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ کا نظام پہلے ہی بہت دباؤ کا شکار ہے، اور اگر اس میں بروقت اصلاحات نہ کی گئیں تو مستقبل میں چیلنجز بڑھ سکتے ہیں۔

اس پالیسی سے متاثر ہونے والی دوسری بڑی گروہ وہ لوگ ہیں جو غیر قانونی طریقوں سے برطانیہ پہنچتے ہیں۔ ان کے لیے ماحول مزید سخت بنایا جا رہا ہے تاکہ ان راستوں کا استعمال کم ہو۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اسمگلرز اور جھوٹی امیدیں دینے والوں کا کاروبار اسی وقت ختم ہوگا جب قوانین سخت اور نفاذ مضبوط ہو۔

پناہ کے متلاشی افراد کے حوالے سے بھی نئے ضابطے متعارف کرائے جا رہے ہیں، جن میں درخواستوں پر تیزی سے فیصلے، غیر ضروری اپیلوں کو محدود کرنا، اور پناہ دینے کے معیار کو مزید واضح کرنا شامل ہے۔ یہ فیصلے یقینی طور پر پورے نظام کی رفتار پر اثر انداز ہوں گے۔

ایک اور پہلو جو سامنے آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اُن افراد کو ترجیح دے رہی ہے جنہیں وہ معاشی شراکت دار سمجھتی ہے۔ یعنی ایسے لوگ جو ملک کی افرادی قوت میں اضافہ کریں گے یا ٹیکس کی شکل میں ملک کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

ان اقدامات کے ناقدین اسے "معاشی بنیادوں پر انسانوں کی درجہ بندی” قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانیت کی بنیاد پر بننے والے قوانین کو صرف معاشی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا، کیونکہ پناہ دینا ایک اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے۔

دوسری طرف کچھ حلقے اس فیصلے کی حمایت بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وسائل محدود ہیں، اس لیے ان کا استعمال اُن لوگوں کے لیے ہونا چاہیے جو ملک کو معاشی اور سماجی طور پر مضبوط بنا سکیں۔ یہ نقطۂ نظر اگرچہ حقیقت پر مبنی ہے، مگر اس سے انسانی ہمدردی کے پہلو کمزور ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

پالیسی کے اثرات کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے مختلف کمیونٹیز میں عدم اعتماد پیدا ہو سکتا ہے۔ امیگریشن قوانین جب بہت زیادہ سخت ہو جائیں تو ان سے متاثرہ افراد میں بے چینی پیدا ہوتی ہے، جو سماجی ہم آہنگی کو کمزور کر سکتی ہے۔

کچھ ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس طرح کی پالیسیاں بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے بھی خلاف جا سکتی ہیں۔ کیونکہ خاندان کا ایک ساتھ رہنا بنیادی انسانی ضرورت ہے جسے اقوامِ متحدہ بھی تسلیم کرتی ہے۔

ان تمام خدشات کے باوجود حکومت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ نئی پالیسی ملک کی سلامتی، استحکام اور امیگریشن کے کنٹرول کے لیے ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر نظام پر اعتماد قائم کرنا ہے تو اسے حقیقت پسندانہ اور سخت ہونا ہوگا۔

وقت کے ساتھ یہ بھی واضح ہوگا کہ آیا یہ پالیسی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ پالیسی کا اصل امتحان اس کے عملی اثرات سے ہوتا ہے، نہ کہ صرف اس کے اعلانات سے۔

پناہ گزینوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے ادارے پہلے ہی اس پالیسی کے معاشرتی مضمرات پر سوال اٹھا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خاندانوں کی علیحدگی کے نفسیاتی اثرات بہت شدید ہوتے ہیں، اور ایسے قوانین ان مشکلات میں مزید اضافہ کریں گے۔

اس پالیسی کے اطلاق کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ درخواستوں کی تعداد میں کمی آئے گی، لیکن اس کے ساتھ متاثرہ خاندانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ بہت سے لوگ اپنی زندگیاں ادھوری محسوس کریں گے کیونکہ ان کے پیارے ایک دوسرے سے جدا رہیں گے۔

آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برطانیہ کی یہ نئی پالیسی امیگریشن کی پوری سمت کو تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ نظام کو مزید سخت، منظم اور کنٹرولڈ بنانے کی کوشش ہے، لیکن اس کے انسانی پہلو وہ سوالات چھوڑ جاتے ہیں جن کا جواب شاید آنے والے وقت میں سامنے آئے گا۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے