پشاور: چترال مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری محی الدین نے الزام عائد کیا ہے کہ نیب اور محکمہ اینٹی کرپشن کو مطلوب اور بلیک لسٹڈ کمپنیوں — خصوصاً ٹونی پاک — کو چترال میں معدنیات کی لیز دینے کی کوششیں جاری ہیں، جو چترالی عوام کے حقوق پر سنگین حملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس آئی ایف سی سمیت متعلقہ ادارے مبینہ دباؤ کے باعث خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

محی الدین نے پشاور پریس کلب میں چیئرمین تحفظ چترال پاکستان مولانا سعید اللہ، تنظیم تحفظ حقوق چترال کے پیر مختار اور رومی آرگنائزیشن پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر امیر نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ایک چینی کمپنی، جس کا سی ای او چین میں مختلف مقدمات میں مطلوب ہے، پاکستان میں "ٹونی پاک” کے نام سے غیر قانونی مائننگ کر رہی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کمپنی اس سے پہلے بھی غیر قانونی طور پر 1500 ٹن اینٹی منی چین اسمگلنگ میں ملوث رہی ہے اور حکومت خیبر پختونخوا کے 35 کروڑ روپے سے زائد کی نادہندہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلیک لسٹڈ کمپنی نے مقامی آبادی کی آواز دبانے کے لیے 30 سیکیورٹی اہلکار بھرتی کیے ہیں جبکہ کچھ افراد کو گارڈز کے یونیفارم پہنا کر علاقے میں تعینات کیا گیا ہے، جس سے چترال کی پرامن فضا کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

محی الدین کے مطابق صوبائی حکومت اور محکمہ معدنیات نے باقاعدہ نوٹیفکیشن کے ذریعے صوبے بھر میں تمام پرانی مائننگ درخواستیں منسوخ کر کے نیا خیبر پختونخوا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ نافذ کیا تھا جس کے تحت ہزاروں لیزیں ختم ہوئیں۔ لیکن اس کے باوجود اگر ٹونی پاک جیسی بلیک لسٹڈ کمپنی کو 2013 کی منسوخ شدہ درخواست کی بنیاد پر لیز دی گئی تو پورے صوبے میں سنگین قانونی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ معدنیات نے منسوخ شدہ لیز کے باوجود گلوبل کنکشن کمپنی کے نمائندے فیصل سلیم کے حق میں لیز بحال کر دی ہے جبکہ امیرت گول میں بھی اسی کمپنی کا جوائنٹ وینچر تاحال منسوخ نہیں کیا گیا۔محی الدین نے دعویٰ کیا کہ "مکو” نامی کمپنی منسوخی کے باوجود بدستور مائننگ کر رہی ہے اور پروٹیکٹڈ فارسٹ کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے قیمتی اور نایاب درختوں کی کٹائی جاری ہے۔ ان کے مطابق تقریباً 300 ٹن کاپر نکالا جا چکا ہے جبکہ مائننگ سامان نیچے منتقل کرنے کے لیے تین لفٹیں بھی لگائی جا رہی ہیں۔

چترال کے نمائندوں نے مطالبہ کیا کہ تمام غیر قانونی جوائنٹ وینچرز فوری ختم کیے جائیں جنگلات کی کٹائی کا نوٹس لیا جائےاینٹی منی کی لیز قانون کے مطابق مقامی درخواست گزاروں کو دی جائےبلیک لسٹڈ کمپنیوں کو لیز دینے کا سلسلہ بند کیا جائےچترال کے مقامی اسٹیک ہولڈرز کو ان کا اصل حق دیا جائےانہوں نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے اپیل کی کہ وہ فوری کارروائی کریں اور چترال کے معدنی وسائل پر قبضے اور لوٹ مار کو روکا جائے۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے