
اندرونِ شہر پشاور کی تنگ و تاریک گلیوں میں واقع تاریخی دارالمساکین، جو کبھی خیرات، تعلیم اور خدمت کا نشان تھا — آج ایک بڑے آپریشن کے بعد سیل کر دیا گیا۔ایک سال سے زیادہ عرصہ سے جاری پُراسرار قبضہ، غیر قانونی تعمیرات اور طاقتور مفادات کی جنگ آخرکار اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ دیوارِ شہر کا انہدام… اور عوامی غصہ، ذرائع کے مطابق قبضہ گروپ نے دارالمساکین میں "ہسپتال” کے نام پر دکانوں کی تعمیر شروع کی اور سرکلر روڈ کی طرف شہر کی تاریخی دیوار بھی گرا دی۔شہر کے باسی چیخ اٹھے — احتجاج ہوا، دیوار دوبارہ تعمیر ہوئی، مگر اندر خفیہ سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ جب نوٹسز ردی بن گئے…محکمہ اوقاف نے بارہا نوٹسز جاری کیے، ضلعی انتظامیہ نے وارننگ دی، حتیٰ کہ تھانہ یکہ توت میں ایف آئی آرز بھی درج ہوئیں — مگر قبضہ مافیا خاموش نہ ہوا۔ہر نوٹس ان کے لیے صرف ایک "کاغذ کا ٹکڑا” بن گیا۔ ہفتے کی صبح — ریڈ شروع، دروازے سیل ہفتے کی صبح اچانک اسسٹنٹ کمشنر پشاور امان عباسی اور محکمہ اوقاف کے افسر اسد خان اپنی ٹیموں کے ساتھ وہاں پہنچے۔چند ہی منٹوں میں علاقہ گواہ بن گیا — دارالمساکین کے دروازے بند کر دیے گئے، تعمیراتی سامان ضبط ہوا، اور غیر قانونی تسلط کا باب ختم ہو گیا۔ "یہ ہمارے والد کا خواب تھا”سیٹھی عبدالکریم کے فرزند سہیل سیٹھی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا: “دارالمساکین والد صاحب نے غریبوں، بچوں اور خواتین کی فلاح کے لیے وقف کیا تھا۔ افسوس کہ کچھ لوگوں نے اسے ذاتی مفاد کا ذریعہ بنا لیا۔ اب جو فیصلہ ہوا، وہ انصاف کا لمحہ ہے۔ ایک صدی پرانی عمارت… اور نئی صبح کبھی سلائی سینٹر، کبھی یتیم بچوں کا سکول، کبھی غریبوں کا سہارا — دارالمساکین آج خاموش ضرور ہے، مگر شہر کے باسیوں کو یقین ہے کہ یہ خاموشی نئی زندگی کی شروعات بنے گی۔
![]()