
سوات کی تحصیل مدین میں پیش آنے والا انیلا بی بی قتل کیس ایک خوفناک موڑ اختیار کر گیا ہے۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ پولیس اور میڈیکل عملہ مل کر اس واضح قتل کو "خودکشی” قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مقتولہ کے قریبی رشتہ دار اخونزادہ جواد احمد نے لرزہ خیز انکشافات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انیلا بی بی دختر زیور، جو چھ ماہ کی حاملہ تھی، کو اس کے شوہر اصغر ولد حبیب الرحمن نے معمولی تنازعے پر تشدد کے بعد گولی مار کر قتل کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم نے بعد میں اہلخانہ کو فون کر کے جھوٹ بولا کہ "انیلا نے خودکشی کر لی ہے” — مگر جب گھر والے موقع پر پہنچے تو منظر ہی کچھ اور تھا۔لاش پر تشدد کے نشانات واضح تھے، مگر پولیس نے شواہد اکٹھے کرنے کے بجائے قتل کو دبانے کی کوشش کی۔اخونزادہ جواد احمد نے الزام لگایا کہ میڈیکو لیگل آفیسر نے پہلے اعتراف کیا کہ خاتون کو قتل کیا گیا ہے، مگر بعد میں اپنا بیان بدل دیا۔ان کے مطابق پولیس نے شوہر اصغر کا وہ بیان بھی غائب کر دیا جس میں اس نے خود اعتراف جرم کیا تھا. لواحقین نے دعویٰ کیا کہ علاقہ ڈی ایس پی کو بارہا ملزمان کے ساتھ بازاروں میں دیکھا گیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ پولیس مکمل طور پر کیس پر اثر انداز ہو رہی ہے۔اخونزادہ جواد احمد نے کہا "ہم انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ہماری بیٹی کا خون ضائع نہ کیا جائے۔ پولیس اور میڈیکل مافیا مل کر قاتل کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔”انہوں نے آئی جی خیبر پختونخوا سے مطالبہ کیا کہ کیس کے منصفانہ ٹرائل کے لیے غیر جانبدار افسران تعینات کیے جائیں اور میڈیکو لیگل رپورٹ میں گڑبڑ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ انصاف کے منتظر ہیں — جبکہ مدین پولیس کی خاموشی اور تاخیر نے پورے علاقے میں خوف اور غصے کی فضا پیدا کر دی ہے۔
![]()