بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کی جانب سے رقوم کی تقسیم کے نئے نظام نے مستحق خواتین کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس بار رقوم کی ادائیگی "کنسائمنٹ سینٹرز” کے ذریعے کی جا رہی ہے، جس سے شہری و دیہی علاقوں کی خواتین کو طویل انتظار اور سخت مشکلات کا سامنا ہے۔پہلے یہ ادائیگیاں شہریوں کے اپنے علاقوں میں قائم مراکز یا پی سی اوز کے ذریعے کی جاتی تھیں، جہاں خواتین آسانی سے رقم وصول کر لیتی تھیں۔ مگر اب مخصوص مقامات پر "ہب سینٹرز” بنا دیے گئے ہیں، جن میں ہزاروں خواتین کو ایک ہی جگہ بلایا جا رہا ہے۔پشاور کے گورنمنٹ نمبر 1 سکول ہشتنگری کے قریب سینکڑوں خواتین گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ رش اور بے ترتیبی کے باعث صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ خواتین کے لیے نہ بیٹھنے کا انتظام ہے، نہ سایہ، نہ ہی پینے کے پانی کی سہولت، جس سے بزرگ اور بیمار خواتین خاص طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔واضح رہے کہ سابقہ اعلانات کے مطابق سینیٹر روبینہ خالد نے کہا تھا کہ نئے نظام سے خواتین کو سہولت ملے گی، رش کم ہوگا، اور انہیں باعزت طریقے سے رقم دی جائے گی، تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔عوامی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رقوم کی تقسیم کو پرانے نظام کے مطابق مقامی سطح پر بحال کیا جائے تاکہ خواتین کو طویل سفر، رش اور مشکلات سے نجات مل سکے۔مزید برآں حکومت اور متعلقہ اداروں سے فوری نوٹس لینے اور عوامی مفاد میں مؤثر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے