
امریکہ میں آزادیٔ صحافت کے لئے ایک نیا محاذ کھل گیا! درجنوں صحافیوں نے بدھ کے روز اپنے پریس کارڈ پینٹاگون کو واپس کر دیے، بجائے اس کے کہ وہ ان نئے ضوابط پر دستخط کریں جو ان کی رسائی کو سختی سے محدود کرتے ہیں۔ ان قواعد کے تحت دفاعی محکمے تک رسائی رکھنے والے صحافی اب صرف "منظور شدہ” طریقے سے معلومات حاصل کر سکیں گے — اور عوامی مفاد کے معاملات پر سوال اٹھانے پر بھی کارروائی کا خطرہ موجود ہے۔پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ نئی پالیسی نے واشنگٹن کی صحافتی دنیا میں بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ بڑے امریکی میڈیا ادارے — بشمول بی بی سی، رائٹرز، ایسوسی ایٹڈ پریس، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ — سب نے اس اقدام کو جمہوریت اور آزادیٔ صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے ذریعے "سچ کو چھپانے” اور "غیر مطبوعہ سوالات کو دبانے” کی کوشش کی جا رہی ہے۔ذرائع کے مطابق، پینٹاگون کی نئی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر کوئی رپورٹر حساس معاملات پر معلومات حاصل کرنے یا سوال کرنے کی کوشش کرے تو اسے "پالیسی کی خلاف ورزی” کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔ایک سینئر امریکی صحافی نے سخت لہجے میں کہا:> "یہ وہ لمحہ ہے جب ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا — ‘پہلے وہ بیوقوفوں کو متاثر کرتے ہیں، پھر عقل مندوں کو خاموش کرا دیتے ہیں۔'”تجزیہ کاروں کے مطابق، پینٹاگون کا یہ فیصلہ نہ صرف میڈیا پر دباؤ بڑھا رہا ہے بلکہ شفاف حکمرانی کے تصور پر بھی سوالات کھڑے کر رہا ہے۔ صحافتی ادارے اب کھلے عام حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس پالیسی کو واپس لے، ورنہ یہ معاملہ عدالتی سطح تک پہنچ سکتا ہے۔
![]()