تحریر: ریاض یوسفزئی
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
آجکل بنوں اور پشاور ریجن میں بہترین عوامی اور پروایکٹیو پولیسنگ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بنوں میں پچھلے چند ماہ سے دہشت گردوں کی پولیس تھانوں اور چوکیوں پرسنائپر فائرنگ کے واقعات اور ڈرون کے ذریعے بم حملوں سے وہاں پر امن وامان کی صورتحال انتہائی بگڑ چکی تھی۔ جنوبی اضلاع بالخصوص بنوں میںجب دہشت گردوں کی جانب سے پولیس چوکیوں اور تھانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات بڑھے، تو آئی جی پی ذوالفقار حمید نے پہلے سلیم عباس کلاچی کو وہاں پر بطورضلعی پولیس آفیسر تعینات کیا اور اس کے بعد محمد سجاد خان کو بطور ریجنل پولیس آفیسر کی ذمہ داریاں سونپ کر بنوں کے عوام کو اعلیٰ پولیس قیادت کا ایک بہترین کمبینیشن فراہم کیا ۔ بلاشبہ اداروں کی عظمت ان کی افرادی قوت کے مرہون منت ہوتی ہے جو اپنی دن رات محنت، ایمانداری اور لگن سے محکموں کو باعزت مقام دلاتی ہے۔ دونوں افسران کی بنوں میں تعیناتی ان کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا تھا ۔ عوامی توقعات کے مطابق دونوں افسران ہر قت فیلڈ میں اپنی فورس کو فرنٹ سے لیڈ کرتے ہیں اور دہشت گردوں سے ان کے براہ راست مقابلوں کی ویڈیوز بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔

اسی طرح ہر ایک شہید کے گھر پر حاضر ی دیتے ہیں ،شہید کے بچوں کو گود میں اُٹھائے ان سے پدرانہ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔شہید کے بچوں کو پولیس کی وردی اور ہار پہنا کر اپنی کرسی پر بٹھاتے ہیں ۔ دونوں اعلی پولیس افسران نے بنوں پولیس کو ایک متحرک فورس میں تبدیل کردیا ہے۔بہترین کمبینیشن کی بدولت بنوں پولیس میں بہترین انڈرسٹینڈنگ فروغ پارہی ہے ۔دونوں اپنے جوانوں کے ساتھ ہر وقت ہر مقابلے کے میدان میں نہ صرف بذات خود موجود ہوتے ہیں ۔بلکہ فرنٹ سے لیڈ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ڈی آئی جی محمد سجاد خان نے بطور ایس ایس پی آپریشنز پشاور، اس وقت میڈیا اور عوام کی توجہ حاصل کی، جب پشاور زرعی یونیورسٹی پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو وہ گھر سے قمیص پہنے بغیر بھاگتے بھاگتے دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے براہ راست ٹی وی سکرین پر نظر آئے۔ نیند سے بیدار ہوتے ہی انہوں نے منہ دھونا کو بھی گوارا نہیں کیا کہ کہیں ان کے بغیر پولیس پارٹی کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ اس کامیاب آپریشن پر لوگوں نے دل کھول کر ان کی دلیری وبہادری اور فرض شناسی کو خراج تحسین پیش کیا ۔عوام ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ان کے دفتر اُمڈ آئے۔ صحافیوں کے لئے ان کا دفترخبریں اکھٹا کرنے کی موزوں جگہ بن گیا ۔اور ان کی شجاعت پر مبنی کارکردگی کو اپنے اپنے چینل پر خوب چلایا۔ محمد سجادخان فیلڈپولیسنگ کے لئے بہترین موزوں آفیسر قرار دیئے گئے ۔لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اس کے بعد وہ کئی سالوںتک فیلڈ سے باہر رہے ۔کافی مدت بعد ان کو بنوں میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کوآزمانے کا موقع میسر آیا۔ بھلا ہوموجودہ آئی جی پی ذوالفقار حمید کا کہ انہوں نے بہت جلد محمد سجا دخان کی صلاحیتوں کو جانچا اور پرکھا ۔دوسری جانب نوجوان پولیس آفیسر سلیم عباس کلاچی نے اپنی شاندار پرفارمنس سے ایک نئے اُبھرے ہوئے پولیس آفیسر کی حیثیت سے عوام کے دل موہ لیئے ہیں ۔بے پناہ قدرتی صلاحیتوں کے مالک سلیم عباس کلاچی ایمانداری ،جرات و بہادری اور فرض شناسی کا استعارہ بن چکے ہیں ۔اسی نوجوان پولیس آفیسر نے بحیثیت ضلع پولیس آفیسر خیبر منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے۔ ضلع خیبر میں ان کو ڈرگ مافیا کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کر نا پڑا ۔ان کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا گیا لیکن سلیم عباس کلاچی اپنے فرائض کو عبادت سمجھ کر بڑھتے رہے ،وہاں منشیات فروشوں کے خلاف ان کی کامیاب کارروائیوں پر مقامی لوگ عش عش کر اُٹھے۔ ان دونوں کی قیادت میں بنوں پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف جو نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان میں تھانہ میر علی پر ڈرون حملے کی کوشش اور تھانہ حوید پر دہشت گردوں کے حملے کو پسپا کرکے دو دہشت گردوں کو ہلاک اور تین کو زخمی حالت میں گرفتارکرنا، چوکی بسیا خیل ،چوکی شیخ لنڈ ک ،چوکی مزنگہ پر سنائپر اور ڈورن حملوں کے جواب میں پولیس نے خود محفوظ رہ کر تمام حملوں کو پسپا کیا ۔اسی طرح تھانہ منڈان ، تھانہ میریان، تھانہ ہوید ، تھانہ بکاخیل چوکی فتح خیل پر دہشتگردوں کی طرف سے مسلسل حملوں کو ناکام بناتے ہوئے دندان شکن جواب دیا گیا ۔ بنوں ،لکی مروت اور شمالی وزیرستان میںانٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز میں دہشگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں تباہ کی گئیں اور بھاری مقدار میں بارودی مواد ، ڈرون آلات اور اسلحہ برآمد کیا ان کامیاب کاررائیوں نے دشمن کے نیٹ ور ک کو شدید نقصان پہنچایا اور عوام کے دلوں میں اعتماد و اطمینان پیدا کیا بنوں کے عوام نے اسلحہ اُٹھاکر اپنی پولیس کے شانہ بشانہ دہشت گردوں کے خلاف لڑنا شروع کیا۔بنوں میں ایف سی پولیس لائنز پر دہشت گرد حملے کو ناکام بناتے ہوئے چھ دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔اس اندوہناک واقعے میں میجر عدنان شہید نے جرات وبہادری اور فرض شناسی کی جو مثال قائم کی وہ آنے والی نسلیں کے لئے کتابوں کے نصاب میں شامل کیا جائیگا۔اس مقابلے میں سلیم عباس دہشت گردوں پرفائرنگ کرتے ہوئے نظر آئے۔ دونوں پولیس افسران کی براہ راست نگرانی نے فورس میں نظم و ضبط کو مزید پروان چڑھایا اور ہر سطح پر میرٹ اور شفافیت کو اولیت دی گئی ۔ دونوں کی مشترکہ کاوشوں سے آج بنوں ریجن نہ صرف دہشت گردی کے عفریت سے بڑی حد تک محفوظ ہو چکا ہے بلکہ امن و امان کی فضا بحال ہو کر عوامی اعتماد میں نمایا ں اضافہ ہوا ہے آئی جی پی خیبر پختونخوا پولیس نے بھی بنوں پولیس کی شاندار کارکردگی پر آر پی او اور بنوں ڈی پی او بنوں کی قیادت کو پولیس فورس کے لیے ایک رول ماڈل قرار دیا ہے دونوں کی کارکردگی پر منتخب عوامی نمائندے بھی چپ نہ رہ سکے۔ اراکین قومی اسمبلی علی محمد خان اور اسد قیصر نے میڈیا پرآ کر دونوں پولیس افسران کی پولیس خدمات کو زبردست الفاظ میں سراہا جو کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ادھر چیف کیپٹل سٹی پولیس پشاور ڈاکٹر میاں سعید احمد کی تعیناتی سے پشاور میں امن و امان کے حوالے سے خوشگوار تبدیلی کی نوید سنائی دے رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک نوجوان، متحرک اور ذہین و فطین پولیس آفیسر مانے جاتے ہیں۔ وہ جہاں بھی تعینات رہے وہاں پر اپنی بہترین صلاحیتوں اور جارحانہ پولیسنگ سے عوام کے لئے اُمید کی کرن بن کر رہے۔ پشاور میں بھی چارج سنبھالتے ہی جارحانہ پولیسنگ سے آغاز کیا۔ کئی ایس ایچ اوز کو لائن حاضر کرکے دوسرے آفسروں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجھائی۔ڈاکٹر صاحب ایس پی رینک پر بھی اعلیٰ پولیس افسران کی پہلی چوائس رہے ہیں اور اعلیٰ پولیس افسر ڈاکٹر صاحب کو اپنی ٹیم کا حصہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں وہ کچھ عرصہ صوبہ سے باہر بھی تعینات رہے جہاں اعلیٰ پولیس قیادت اُن کو یہاں سے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔


صوبے میں ان جیسے انتہائی قابل، پیشہ ور اور محترک پولیس آفیسرکی خدمات بہت شدت سے محسوس کیجارہی تھیں۔ وزیراعلیٰ نے بھی ان کی صلاحیتوں اور قابلیت پر بھر پور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں چیف کیپٹل سٹی پشاور کے لیے پہلی چوائس قرار دیا۔ سمارٹ اور انرجیٹک ڈاکٹر صاحب نے آغاز تو بہت اچھا کیا ہے ان کے عزم، ہمت اور حوصلے کو دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جاتی ہے کہ وہ پشاور کو ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنا کر تاریخ میں جگہ بنالیں گے۔ مسعود احمد بنگش بطور ایس ایس پی آپریشنز پشاور اپنی کوششیں کررہے تھے۔ اب ڈاکٹر صاحب کی سرپرستی میں وہ مزید کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ملک سعد شہید کی طرح آپ کا تعلق بھی ضلع کوہاٹ سے ہے اور اب تک اپنی ملازمت کا زیادہ عرصہ کراچی میں گزار چکے ہیں۔ کراچی بالخصوص گڑھی خدا بخش میں ان کی پولیس خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چارسدہ میں جب اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تو پھر پشاور کے لیے ان کی خدمات مانگی گئی۔ دونوں کی جوڑی پشاور کے عوام کو جرائم پیشہ افراد کے نرغے سے بچ نکالنے میں کامیاب ثابت ہوگی۔ دونوں کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے بہترین موقع میسر آیا ہے اور یہ پوسٹنگ دونوں کی پیشہ ورانہ کیریئر میں سنہری حروف سے یاد رکھی جائیگی۔ عوام اور عوامی نمائندے پولیس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اپنی اطمینان کا اظہار کر ے ایسے مواقع ماضی میں بہت کم دیکھنے کو ملے ہیں۔
![]()