ضلع بنوں میں اسسٹنٹ کمشنر شمالی وزیرستان کے قافلے پر ہونے والا حملہ نہ صرف ایک المناک سانحہ ہے بلکہ یہ پورے انتظامی نظام اور خطے کی سیکیورٹی صورتحال پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر شاہ ولی خان اپنے سرکاری سکواڈ کے ہمراہ بنوں–میرانشاہ روٹ پر سفر کر رہے تھے کہ معصوم آباد ممند خیل کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ اس کے نتیجے میں اسسٹنٹ کمشنر شاہ ولی خان سمیت چار افراد موقع پر ہی جانبحق ہو گئے، جن میں دو پولیس اہلکار اور ایک راہگیر بھی شامل ہیں۔ فائرنگ کے بعد شدت پسندوں نے سرکاری گاڑی کو آگ لگا دی جس سے صورتحال مزید دلخراش ہو گئی اور لاشیں بھی ناقابلِ شناخت ہو گئیں۔لیٹ کر پیچھے ہٹنا ان کے مزاج میں شامل نہیں تھا۔ جنوبی وزیرستان کے شہر وانہ سے تعلق رکھنے والے اسسٹنٹ کمشنر شاہ ولی وزیر ایک ذہین، محنتی اور فرض شناس افسر تھے جنہوں نے جی سی لاہور سے گریجویشن کے بعد پہلی ہی کوشش میں صوبے کا مشکل ترین پی ایم ایس امتحان پاس کر کے نوجوانوں کے لئے ایک مثال قائم کی۔ کم عمری میں اس بڑے عہدے تک پہنچنا ان کی اہلیت، کردار اور دیانت داری کا ثبوت تھا۔ شمالی وزیرستان جیسے حساس ضلع میں تعیناتی کے باوجود انہوں نے کبھی اپنے فرض سے پیچھے ہٹنے کا سوچا بھی نہیں۔ اطلاعات کے مطابق انہیں کافی عرصے سے سنگین نوعیت کے خطرات لاحق تھے۔ کئی بار ان کے قافلے اور گاڑی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، حتیٰ کہ ان کے ڈرائیور سمیت گاڑی کا اغوا بھی کیا گیا، مگر وہ تمام دباؤ کے باوجود اپنے کام، اپنی ذمہ داری اور اپنے عوام کے ساتھ کھڑے رہے۔مقامی لوگوں کے مطابق حملے کے بعد کافی دیر تک کوئی امدادی ٹیم یا سیکیورٹی فورسز موقع پر نہیں پہنچی، جس سے نقصانات مزید بڑھ گئے۔ یہ صورتحال نہ صرف قابلِ تشویش بلکہ سیکیورٹی میکنزم میں موجود خامیوں کی سخت نشاندہی کرتی ہے۔ڈی آئی جی بنوں نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ملزمان کو جلد گرفتار کیا جائے گا۔ تاہم اس واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایسے مخلص اور قابلیت رکھنے والے افسران سب سے زیادہ خطرات کا سامنا کرتے ہیں۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے