امریکہ میں مقیم MQM‑L لندن کی رکن کہکشاں حیدر کے کیس نے پاکستان کے سیاسی اور سکیورٹی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکہ میں قانونی کارروائی کے بعد انہیں ۸ سال قید کی سزا سنائی گئی، جو ایک عدالت کے فیصلے پر مبنی ہے۔

کہکشاں حیدر پر الزام ہے کہ انہوں نے بیرون ملک سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے ایک نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے افراد کی رہنمائی کی۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے CTD نے کہا کہ وہ مبینہ طور پر ٹارگٹ کلرز سے رابطے میں تھیں اور انہیں اہداف کی فہرست فراہم کرتی تھیں۔

سال ۲۰۲۱ میں کراچی سے تین ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا گیا، جنہوں نے تفتیش کے دوران کہا کہ انہیں کارروائیوں کی ہدایات موصول ہوتی تھیں۔ یہ دعوے CTD کی جانب سے کیے گئے الزامات ہیں اور پاکستان کی عدالتوں میں ابھی تک مکمل طور پر ثابت شدہ نہیں ہیں۔

تفتیش کاروں کے مطابق، گرفتار ہٹ مین کو ٹارگٹ کلنگ کے لیے وقت، مقام اور فرار کے راستے بتائے جاتے تھے۔ CTD نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کہکشاں ہر کارروائی کے بعد مالی انعام کی ادائیگی کی ذمہ دار تھیں۔

ایک آڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے، جس میں کہکشاں حیدر مبینہ طور پر کارروائی کے بارے میں ہدایات دیتی سنائی دیتی ہیں۔ CTD کے مطابق، کچھ اہداف ایسے تھے جنہیں نشانہ بنانے سے شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ سکتی تھی۔

اس کیس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ کہکشاں حیدر کے روابط ایسے عناصر سے تھے جو ملک دشمن سرگرمیوں میں مشہور ہیں۔ مالیاتی ریکارڈ کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹارگٹ کلرز کو ادائیگیاں بیرون ملک سے کی جاتی تھیں۔

امریکی عدالت میں کہکشاں حیدر کو جھوٹے بیانات دینے کے جرم میں سزا دی گئی۔ اس فیصلے کے مطابق، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ کراچی میں پرتشدد کارروائیوں میں براہ راست ملوث نہیں تھیں، لیکن وہ اپنے تعاون کے بارے میں معلومات چھپاتی رہیں۔

یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر بھی اہم ہے، کیونکہ یہ دکھاتا ہے کہ بیرون ملک مقیم افراد کس طرح دیگر ممالک میں ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کے الزامات کا حصہ بن سکتے ہیں۔

پاکستان میں CTD اور رینجرز کا کہنا ہے کہ کہکشاں حیدر لندن کی MQM‑L کی رکن تھیں، اور انہوں نے کراچی میں مبینہ طور پر ٹارگٹ کلنگ ٹیم کی رہنمائی کی۔ یہ دعوے تحقیقات اور میڈیا رپورٹس پر مبنی ہیں، لیکن عدالتوں میں ابھی حتمی طور پر ثابت نہیں ہوئے۔

اس کیس نے کراچی میں سکیورٹی اور سیاسی حلقوں میں بحث کو جنم دیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اراکین کی سرگرمیوں کی نگرانی کس حد تک کرنی چاہیے، تاکہ کسی بھی سیاسی پلیٹ فارم کو جرائم کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔

کہکشاں حیدر کے کیس نے یہ بھی واضح کیا کہ جدید دور کی دہشت گردی سرحدوں کی پابند نہیں، اور جدید ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور آن لائن رابطوں کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر منصوبہ بندی ممکن ہے۔

پاکستانی سکیورٹی اداروں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس نیٹ ورک کے مقامی سہولت کاروں کا تعاقب کیا جائے گا اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی تاکہ مستقبل میں ایسے نیٹ ورک دوبارہ فعال نہ ہو سکیں۔

یہ معاملہ ایک انتباہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے نئے ماڈلز کے خلاف بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے۔ ریاست اگر اپنی پوری قوت سے نیٹ ورکس کا تعاقب کرے تو چاہے وہ کہیں بھی ہوں، بالآخر قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔

کہکشاں حیدر کے کیس نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ بات واضح کی ہے کہ دہشت گردی کے الزامات میں قانونی کارروائی، تحقیقات اور شفاف عدالتی عمل ضروری ہے۔

یہ کیس سیاسی، قانونی اور سکیورٹی لحاظ سے ایک پیچیدہ مگر نمایاں حقیقت ہے، جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ریاست اور بین الاقوامی ادارے مشترکہ طور پر ایسے نیٹ ورک کا مؤثر تدارک کر سکتے ہیں۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے