امجد ہادی یوسفزئی

گیارہ برس بعد نشتر ہال میں کمرشل پشتو تھیٹر کی واپسی ہوئی، مگر ڈرامہ "بنڈلی ماما” بری طرح ناکام رہا اور اس نے پشتو تھیٹر کے مستقبل پر سنگین سوالات پیدا کر دیے۔ تین روزہ تھیٹر ڈرامے کے دوران ہال میں موجود شائقین کی تعداد انتہائی کم رہی، جو اس فن کے زوال کی دردناک تصویر پیش کرتی ہے۔
ناکامی صرف ڈرامے کی کمزور اسکرپٹ یا پرفارمنس تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ واضح کرتی ہے کہ عوام اب تھیٹر کی سنجیدگی اور روایت کو چھوڑ چکی ہے۔ نئی نسل کے شائقین کے لیے تھیٹر عجیب اور غیر دلچسپ ہو چکا ہے اور وہ صرف ڈانس، فلمی شوز اور سطحی تفریح کی طرف مائل ہیں۔ ڈرامے کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر سجاد خلیل کے مطابق وہ دور ختم ہو گیا جب لوگ تھیٹر کے لیے گھروں سے نکلتے تھے۔ آج عوام کے ذوق میں تبدیلی آ چکی ہے اور وہ سکرین پر ڈانس، ورائٹی شوز اور فلمی کہانیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


نشتر ہال میں موجود پابندیاں اور قواعد نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ جب فنکار اپنی صلاحیت دکھانے کے لیے محدود ہوں اور آزادی سے کام نہ کر سکیں تو اس کا اثر براہِ راست حاضرین کی دلچسپی پر پڑتا ہے۔ نتیجتاً نہ صرف ڈرامے کی کامیابی خطرے میں آ گئی بلکہ فنکار بھی اپنی محنت کے نتائج حاصل نہیں کر پائے۔ “بنڈلی ماما” کی کاسٹ میں سعید رحمان شینو، ریما خان، نادیہ خان، راجہ خان خلیل، افتخار خان، نیک خان اور دیگر نے پوری محنت کی، مگر خالی ہال اور کمزور سامعین کی دلچسپی نے ہر کوشش کو محدود کر دیا۔ ڈرامے کے اختتامی منظر میں ہیرو کی موت کے منظر پر لوگ ہنس رہے تھے، جو بدلتے ہوئے عوامی مزاج اور تھیٹر کے بارے میں شائقین کے رویے کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ مجموعی طور پر تین دنوں میں صرف چھ ٹکٹیں فروخت ہوئیں، جو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ عوام اب نشتر ہال میں پیسے دے کر تھیٹر دیکھنے نہیں آتی۔
یہ صورتحال پشتو تھیٹر کے مستقبل کے لیے سنجیدہ خطرہ ہے۔ فنکار اور پروڈیوسر چاہتے ہیں کہ اگر اس روایت کو زندہ رکھنا ہے تو عوام میں دوبارہ دلچسپی پیدا کی جائے۔ اس مقصد کے لیے یہ ضروری ہے کہ چھ ماہ تک ڈرامے مفت پیش کیے جائیں تاکہ لوگ تھیٹر کے حقیقی لطف سے دوبارہ واقف ہو سکیں۔ ساتھ ہی، سینما گھروں میں جاری ڈانس شوز اور سطحی تفریح پر پابندی لگائی جائے تاکہ نوجوان نسل کی توجہ سطحی تفریح کی طرف مائل نہ ہو اور تھیٹر کے سنجیدہ مواد کے لیے راستہ ہموار ہو۔
“بنڈلی ماما” کی ناکامی محض ڈرامے کی ناکامی نہیں بلکہ پشتو تھیٹر کی موجودہ حالت کی عکاسی ہے۔ خالی ہال، پابندیاں، بدلتا ہوا عوامی مزاج اور سطحی تفریح کی ترجیحات- یہ سب عوامل اس فن کی بقاء کے لیے خطرہ ہیں۔ اگر حکومت، ثقافتی ادارے اور فنکار مل کر فوری اور عملی اقدامات نہ کریں، تو پشتو تھیٹر ایک وقت کی روایت بن کر رہ جائے گا اور اس کی سنجیدہ کہانیاں، جذبات اور ثقافت کی عکاسی عوام کی نظر سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائے گی۔ وقت کم ہے اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنے ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں یا صرف یادوں میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں-
![]()