(رپورٹ: سردار یوسفزئی، سیکرٹری جنرل پشتو ادبی سوسائٹی اسلام آباد)

گزشتہ روز اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد میں پشتو ادبی سوسائٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام نامور شاعر، ادیب اور سماجی کارکن مرحوم خالد خان خالد کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا۔

یہ تعزیتی اجلاس چیئرمین سید محمود احمد کی صدارت میں ہوا، جبکہ معروف ادبی شخصیات محترم ایم۔ آر۔ شفق اور محترم فیض گدون مہمانِ خصوصی تھے۔ مرحوم کے صاحبزادگان اسفندیار خان اور شہباز خان اعزازی مہمانوں کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ نظامت کے فرائض سردار یوسفزئی نے انجام دیے۔

تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا، جس کے بعد مرحوم کی مغفرت کے لیے دعا کی گئی۔تقریب سے خطاب کرنے والوں میں خان کریم اپریدی، حیات سواتی، اکرم نازی، عزیز خٹک، امیر زیب خان، فضل محمد خان، شاہد باچا اور امجد باچا شامل تھے۔ مقررین نے مرحوم کی علمی و ادبی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور پشتو ادبی سوسائٹی اسلام آباد کے اس اقدام کو سراہا کہ وہ اپنے ممتاز ادبی شخصیات کو نہ صرف زندگی میں بلکہ وفات کے بعد بھی یاد رکھتی ہے۔

یاد رہے کہ خالد خان خالد طویل علالت کے بعد اکتوبر 2025 میں اتوار کی شب اسلام آباد میں وفات پا گئے تھے۔ ان کی نمازِ جنازہ اگلے روز 19 اکتوبر کو ضلع صوابی، تحصیل رزڑ کے گاؤں ادینہ میں ادا کی گئی، جس کے بعد انہیں سپردِ خاک کیا گیا۔

گاؤں کے بزرگ اجمل خان نے قبر پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خالد خان نہ صرف ایک باکمال شاعر تھے بلکہ انہوں نے سوات اور بونیر میں فوجی آپریشنوں کے دوران بے گھر ہونے والے متاثرین کی دل کھول کر مالی مدد کی۔ وہ یتیموں، بیواؤں اور غریب طلبہ کی بھی خفیہ امداد کیا کرتے تھے۔

خالد خان خالد نے عملی سیاست میں بھی حصہ لیا اور اپنے یونین کونسل ادینہ سے بطور کونسلر خدمات انجام دیں۔ وہ عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم پر انقلابی نظموں کے ذریعے عوامی شعور اجاگر کرتے رہے اور انہیں ولی خان اور بیگم نسیم ولی خان جیسے رہنماؤں کی جانب سے داد و تحسین بھی ملی۔

سال 2004 میں وہ اپنے خاندان سمیت اسلام آباد منتقل ہوئے، جہاں تینوں بھائی ایک ساتھ آباد ہوئے۔ انہوں نے تعمیراتی کاروبار شروع کیا لیکن ادب سے اپنا رشتہ مضبوط رکھا۔ سال 2008 میں پشتو ادبی سوسائٹی اسلام آباد سے وابستہ ہوئے اور کچھ عرصہ اس تنظیم کے ڈپٹی سیکرٹری بھی رہے۔

2014 میں وہ پٹھوں کے مرض میں مبتلا ہوئے اور ایک ناکام آپریشن کے بعد چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔ اس کے باوجود انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور سوسائٹی کے ساتھ اپنا تعلق برقرار رکھا۔ سال 2022 میں جب تمام اراکینِ سوسائٹی نے متفقہ طور پر سردار یوسفزئی کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا تو ان کے دور میں خالد خان خالد کے اعزاز میں منعقد ہونے والی ایک یادگار تقریب سے اس روایت کا آغاز ہوا کہ سوسائٹی اپنے سینئر اراکین کی خدمات کا اعتراف کرے گی۔

دس سال کی طویل علالت کے باوجود خالد خان خالد حوصلے اور اخلاص کا پیکر بنے رہے۔ دو بھائیوں کی وفات نے انہیں گہرا صدمہ پہنچایا مگر وہ آخر دم تک حوصلہ مند اور فعال رہے۔ وہ نہ صرف ایک شاعر بلکہ حقیقی معنوں میں سوشل ورکر تھے۔ ان کے کلام میں مزدور طبقے کی نمائندگی واضح نظر آتی ہے اور عملی زندگی میں بھی انہوں نے مزدوروں اور ناداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔

تقریب کے اختتام پر مرحوم کے صاحبزادے شہباز خان نے اپنے والد کی مشہور نظم "ستا نہ قربان وطنه” خوبصورت ترنم میں پیش کی، جس سے فضا جذبات سے بھر گئی۔تقریب میں سکندر خان، سید عامر باچا، ایاز خان، ڈاکٹر فدا حسین اور محترم محبوب بنگش بھی موجود تھے۔

مرحوم کے اہلِ خانہ نے پشتو ادبی سوسائٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ "تنظیم نے ہمارے والد کو زندگی میں بھی عزت دی اور وفات کے بعد بھی ان کی یاد کو زندہ رکھا — یہ ہمارے لیے باعثِ فخر ہے۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے