خیبر (امان علی شینواری) — لنڈی کوتل بازار کے باچا خان چوک میں جمعیت علمائے اسلام لنڈی کوتل کی جانب سے پاک افغان طورخم سرحد کی بندش اور حالیہ کشیدگی کے خلاف بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، تجارت کو سیاست سے دور رکھا جائے اور پاک افغان بارڈر کو فوری طور پر کھول کر مقامی آبادی کو معاشی تباہی سے بچایا جائے۔

مظاہرے سے مفتی اعجاز شینواری، کسٹم کلئیرنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین معراج الدین، مجیب شینواری، مولانا علی احمد بنوری، تحصیل چیئرمین شاہ خالد شینواری، حاجی بنارس، عاقب درویش، مولانا عظیم شاہ، یوتھ ایم پی اے اشفاق احمد اور قاری نظیم گل شینواری نے خطاب کیا۔

مقررین نے کہا کہ طورخم بارڈر کی طویل بندش مقامی عوام کے لیے معاشی دہشتگردی کے مترادف ہے، جو کسی صورت قبول نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ تین دن کے اندر اندر سرحد کو غیر مشروط طور پر کھولا جائے، ورنہ احتجاج مزید شدت اختیار کرے گا۔انہوں نے بتایا کہ آج بارڈر بندش کا 36 واں دن ہے، جس کے باعث سینکڑوں پاکستانی افغانستان میں اور متعدد افغان مسافر پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مقررین نے دونوں ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ پھنسے ہوئے افراد کو جذبہ خیرسگالی کے تحت فوری طور پر گزرنے کی اجازت دی جائے۔

مقررین نے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور افغان وزیر ملا عبدالغنی برادر کے سخت بیانات پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایسی بیان بازی حالات کو مزید خراب کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں مسلم برادر ممالک ہیں، جن کے درمیان صدیوں پر محیط معاشی و سماجی تعلقات ہیں۔ ان رشتوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔شرکاء نے کہا کہ بارڈر بند ہونے سے لنڈی کوتل کے ہزاروں مقامی مزدور، کلیئرنگ ایجنٹس، تاجر اور ٹرانسپورٹرز شدید متاثر ہوئے ہیں۔ علاقے کی معیشت کا انحصار طورخم سرحد پر ہے، اس لیے بارڈر بندش نے معاشی حالات تباہ کر دیے ہیں۔

مقررین نے زور دیتے ہوئے کہا کہ گولی اور کارتوس مسئلے حل نہیں کرتے، تعلقات بگاڑتے ہیں۔ مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں، تاکہ تجارت، مزدوری اور دو طرفہ روابط کو نقصان نہ پہنچے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قبائلی عمائدین کو جرگے کے ذریعے کردار ادا کرنے دیا جائے اور افغانستان کے ساتھ نرم اور بہتر پالیسی اختیار کی جائے، تاکہ امن اور برادرانہ تعلقات بحال ہو سکیں۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے