
بھارت کی جانب سے اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کے واقعات کروانے کے الزامات کوئی نئی یا اچانک سامنے آنے والی بات نہیں۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جسے عالمی سطح پر “False Flag Operations” کہا جاتا ہے، یعنی ایسے واقعات جنہیں خود کروایا جائے اور الزام دشمن ملک پر ڈال دیا جائے۔ بھارت میں کئی سیاسی تجزیہ کار، سابق افسران اور غیر جانبدار مبصرین اس بات کا ذکر کرتے رہے ہیں کہ بھارتی سیاست میں خوف اور نفرت کا استعمال ووٹ حاصل کرنے کا موثر ترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ بی جے پی کے دور میں خاص طور پر بڑھا ہے، کیونکہ اس جماعت کی سیاست قوم پرستی اور دشمن کی تخویف کے گرد گھومتی ہے۔بھارت میں ہونے والے بعض بم دھماکوں، فسادات اور حساس نوعیت کے واقعات کے بارے میں خود بھارتی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس سامنے آ چکی ہیں جن میں اعتراف کیا گیا کہ ان کا تعلق ہندو انتہا پسند گروہوں سے تھا۔ سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ، مالیگاؤں دھماکے، اور مکہ مسجد دھماکے ایسے واقعات ہیں جنہیں ابتدا میں پاکستان سے جوڑا گیا مگر بعد میں ان کے پیچھے آر ایس ایس اور اس سے جڑے دہشت گرد گروہ نکلے۔
ان واقعات سے یہ ظاہر ہوا کہ بھارت میں دہشت گردی صرف سرحد پار سے نہیں بلکہ اندرونی انتہا پسندی سے بھی جنم لیتی ہے۔ مگر سیاسی فائدے کے لیے حکمران جماعت نے ہمیشہ کوشش کی کہ ان واقعات کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیا جائے تاکہ عوام کو ایک مشترکہ دشمن دکھایا جا سکے۔حالیہ واقعہ بھی اسی پالیسی کی توسیع سمجھا جا رہا ہے۔ جب بھی بھارت میں انتخابات قریب آتے ہیں یا حکومت کسی عوامی یا معاشی بحران میں پھنس جاتی ہے، ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جو سیاسی بیانیے کو ایک نیا رخ دیتے ہیں۔ اس سے حکومت کو یہ موقع ملتا ہے کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دی جائے۔مودی سرکار نے پچھلے کئی سالوں میں پاکستان کے خلاف ایک ایسا ماحول تیار کیا ہے جس میں مکالمہ، مذاکرات یا امن کا تصور کمزور دکھائی دیتا ہے۔ ہر دہشت گردی کے واقعے کو بنا تحقیق پاکستان کے کھاتے میں ڈال دینا بھارتی میڈیا کا معمول بن چکا ہے۔
بھارتی میڈیا کا کردار اس صورتحال میں انتہائی اہم ہے۔ وہاں خبریں نہیں بلکہ بیانیے بیچے جاتے ہیں۔ اسٹوڈیوز میں بیٹھے اینکر، تجزیہ کار اور حکومتی ترجمان یکطرفہ تصویر پیش کرتے ہیں۔ اور یہ تصویر عالمی برادری کی بجائے بھارتی عوام کے ذہنوں کے لیے ہوتی ہے، تاکہ وہ جذباتی طور پر حکومت کی حمایت کریں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اس بار مودی اس حکمت عملی کے ذریعے دنیا کی رائے عامہ پاکستان کے خلاف موڑ سکے گا؟ اس کا جواب ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہے کہ عالمی سطح پر رائے عامہ محض پروپیگنڈا سے نہیں بنتی بلکہ شواہد اور ماحول کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان گزشتہ کچھ برسوں میں اپنی عالمی سفارتی ساکھ بہتر بنانے میں مصروف رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا، دہشت گردی کے خلاف واضح اقدامات، اور افغانستان کے تناظر میں پاکستان کا تعاون جیسے عوامل نے عالمی تصور میں بہتری پیدا کی ہے۔دوسری جانب بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں، مسلمانوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں پر تشدد، کشمیر میں کرفیو اور میڈیا کی آزادی پر پابندیوں نے عالمی سطح پر بھارت کی شبیہ کو متاثر کیا ہے۔ کئی عالمی ادارے اور ممالک اب کھل کر بھارتی پالیسیوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
مزید یہ کہ عالمی برادری اب سوشل میڈیا اور آزاد معلومات کے دور میں پرانی انداز کی پروپیگنڈا پالیسیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی واقعہ جلد عالمی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی سطح پر جانچ کا حصہ بن جاتا ہے۔اگر بھارت واقعی عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف موڑنا چاہتا ہے تو اسے شفاف تحقیقات اور شواہد پیش کرنا ہوں گے۔ لیکن بھارت کا طرز عمل ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ الزام لگاؤ، مہم چلاو، اور بات ختم۔ اس طرز پر دنیا اب پہلے جتنا یقین نہیں کرتی۔البتہ بھارتی حکومت جانتی ہے کہ اس بیانیے سے اسے عالمی سطح پر اتنا فائدہ نہ بھی ملے، مگر داخلی سطح پر ضرور حاصل ہوتا ہے۔ ایک دشمن دکھایا جاتا ہے اور پھر بتایا جاتا ہے کہ صرف مضبوط لیڈر ہی اس دشمن کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اسی وجہ سے ایسے واقعات میں اضافہ عموماً بھارت کے اندر مخصوص سیاسی تقویم کے دوران ہوتا ہے۔ یہ ایک اندرونی انتخابی حکمت عملی ہے، نہ کہ بین الاقوامی سفارتی پالیسی۔
پاکستان کی ذمہ داری اس وقت یہ ہے کہ وہ ٹھنڈے دماغ کے ساتھ بین الاقوامی فورمز، میڈیا پلیٹ فارمز اور سفارتی چینلز کے ذریعے اپنا نقطہ نظر واضح انداز میں پیش کرے۔ الزام تراشی کا جواب الزام سے نہیں بلکہ شواہد اور تحمل مزاج سفارت سے دیا جانا چاہیے۔پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات اور امن کے راستے کو ترجیح دی ہے۔ اس کی مثال لائن آف کنٹرول پر مختلف مواقع پر کئے گئے اقدامات اور اعتماد سازی کی کوششیں ہیں۔ لیکن بھارت کی جانب سے سخت گیر رویہ امن کے امکانات کو کمزور کرتا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ خطہ پہلے سے ہی اقتصادی اور سیاسی دباؤ کا شکار ہے۔ کسی بھی نئی کشیدگی کا نقصان دونوں ملکوں کے عوام کو ہوگا۔ جنگ، خوف اور پروپیگنڈا کسی بھی قوم کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
مودی سرکار کی یہ حکمت عملی وقتی طور پر اندرونی سیاست میں اسے فائدہ دے سکتی ہے، مگر عالمی سطح پر اس کے اثرات محدود رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ دنیا اب متوازن انداز میں جنوبی ایشیا کی حقیقتوں کو دیکھ رہی ہے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی طرف سے اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کے کھیل کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا کم اور داخلی سیاست میں فائدہ حاصل کرنا زیادہ ہے۔جو قومیں خوف اور نفرت کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں، وہ ایک وقت کے بعد خود اپنے ہی بیانیے کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بھارت میں اس بیانیے نے اقلیتوں اور مخالف آوازوں کو پہلے ہی دیوار سے لگا دیا ہے، اور داخلی تقسیم میں شدید اضافہ ہو چکا ہے۔
نتیجتاً یہ سوال برقرار ہے کہ کب تک بھارتی سیاست نفرت اور دشمنی کے سہارے چل سکتی ہے؟ تاریخ کہتی ہے کہ ایسی سیاست کا انجام ہمیشہ کمزور ریاستی ساخت اور معاشرتی انتشار پر ہوتا ہے۔پاکستان کو چاہئے کہ وہ ثابت قدم رہے، اپنے اندرونی ڈھانچے کو مضبوط کرے، اور عالمی سطح پر متوازن طرز عمل برقرار رکھے۔ کیونکہ عالمی بیانیہ ہمیشہ ان ممالک کے ساتھ کھڑا رہتا ہے جو امن، استحکام اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔آخر میں سچ وہی رہتا ہے جو وقت ثابت کر دیتا ہے، اور جھوٹ ہمیشہ وقتی ہنگامہ تو کھڑا کرتا ہے مگر دیرپا اثر پیدا نہیں کر پاتا۔
![]()