
انجینئر بخت سید یوسفزئی بریڈفورڈ انگلینڈ
ہوس انسان کی فطرت میں رکھی گئی ایک حقیقت ہے، جو اس کی جبلت کا حصہ ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو نسلِ انسانی کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ مگر جب یہی جذبہ حدود سے تجاوز کر جائے تو تباہی، گمراہی اور اخلاقی زوال کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو اگر قابو میں رہے تو روشنی دیتی ہے، مگر اگر بےقابو ہو جائے تو سب کچھ جلا ڈالتی ہے۔انسان کے اندر موجود یہ جذبہ کسی جرم یا عیب کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک فطری نظام ہے۔ مگر اس کا مقصد صرف نفسانی لذت نہیں، بلکہ ازدواجی تعلق کے دائرے میں رہ کر ایک پاکیزہ نسل کو آگے بڑھانا ہے۔ جب انسان اس دائرے سے نکل کر اپنی خواہشات کو آزاد چھوڑ دیتا ہے، تو وہ شیطان کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ہوس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور لمحاتی لذت کے پیچھے اپنی عزت، ایمان، اور حتیٰ کہ مستقبل بھی قربان کر دیتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان حیوان سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور اپنی خواہشِ نفس کو روکا، تو جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہے۔” (سورۃ النازعات: 40-41)۔ اس آیت میں صاف الفاظ میں بتایا گیا کہ کامیاب وہ ہے جو اپنی خواہشات کو قابو میں رکھے، نہ کہ ان کے غلام بن جائے۔آج کے دور میں، جب سوشل میڈیا ہر ہاتھ میں ہے، فحاشی اور عریانی عام ہو چکی ہے۔ یوٹیوب، ٹک ٹاک، فیس بُک اور دیگر پلیٹ فارمز پر ایسے مواد کی بھرمار ہے جو ذہن کو آلودہ کر دیتا ہے۔ پاکستانی نوجوان، جو ایک وقت میں غیرت، حیا اور دینی شعور کی مثال تھے، اب ان چیزوں کے عادی بنتے جا رہے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ یہ عادت محض وقتی لذت نہیں بلکہ ایک نفسیاتی بیماری بن چکی ہے۔ فحش مواد دیکھنے والا انسان رفتہ رفتہ جنسی طور پر مایوس اور ذہنی طور پر پریشان ہو جاتا ہے۔ اسے حقیقی محبت یا ازدواجی تعلق میں سکون نہیں ملتا، کیونکہ اس کی سوچ مصنوعی لذتوں کی اسیر بن جاتی ہے۔ہوس کی آگ جب بھڑکتی ہے تو انسان کو حلال اور حرام کی تمیز نہیں رہتی۔ وہ نظروں سے لے کر خیالات تک ہر چیز میں آلودگی پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے رب سے دور ہو جاتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جو مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔” (بخاری شریف)۔ اس حدیث میں دو چیزوں کی حفاظت کو نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا — زبان اور شرمگاہ۔ مگر آج کے انسان نے ان دونوں پر قابو چھوڑ دیا ہے۔فحاشی کو مردانگی سمجھنا دراصل جہالت کی انتہا ہے۔ مردانگی اس میں نہیں کہ کوئی اپنی نظر، زبان یا عمل سے بےحیائی پھیلائے۔ اصل مردانگی یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو قابو میں رکھے، اپنی خواہش کو قابو کرے، اور حلال راستہ اختیار کرے۔جو شخص اپنی ہوس پر غالب آ جائے، وہ دراصل اپنے آپ کا بادشاہ ہے۔ اور جو اپنی خواہشات کے آگے جھک جائے، وہ اپنے ہی نفس کا غلام ہے۔ یہ غلامی سب سے بری غلامی ہے، کیونکہ یہ روح کو تباہ کر دیتی ہے۔ہمارے معاشرے میں یہ بیماری عام ہو چکی ہے کہ نوجوان اپنی ناکامیوں اور ذہنی دباؤ سے بھاگنے کے لیے فحش مواد کی طرف جاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ وقتی سکون دے گا، مگر دراصل یہ ان کے اندر ایک نئی آگ بھڑکا دیتا ہے۔ہر بار جب وہ اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے حرام کی طرف جاتے ہیں، ان کا ضمیر کمزور ہوتا جاتا ہے۔ آخرکار وہ اس حالت میں پہنچ جاتے ہیں جہاں گناہ کو گناہ سمجھنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی روحانی موت ہے۔اس مسئلے کا حل محض نصیحتوں میں نہیں بلکہ عملی جدوجہد میں ہے۔ انسان کو اپنے دل و دماغ کو مصروف رکھنا ہوگا۔ عبادت، مطالعہ، جسمانی ورزش، اور حلال کاموں میں مشغول ہونا، یہ سب طریقے ہیں جن سے انسان اپنی توانائی کو مثبت رخ دے سکتا ہے۔قرآن کی تلاوت، ذکرِ الٰہی، اور نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل، انسان کے دل کو پاک کرتے ہیں۔ جب دل پاک ہو جائے تو نظر خود بخود پاک ہو جاتی ہے۔اسلام یہ نہیں کہتا کہ جذبہ ختم کر دو، بلکہ یہ کہتا ہے کہ اسے قابو میں رکھو۔ نکاح کو آسان بنایا گیا تاکہ یہ فطری جذبہ حلال راستے میں پورا ہو۔ مگر افسوس کہ آج کے معاشرے نے نکاح کو مشکل بنا دیا اور گناہ کو آسان۔والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو وقت پر نکاح کے قابل بنائیں، ان کی تربیت کریں، اور انہیں فحاشی کے ماحول سے بچائیں۔ اگر معاشرہ یہ ذمہ داری نہیں لے گا تو پھر بگاڑ مزید بڑھے گا۔ہمارے میڈیا اور تفریحی اداروں کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ نسلِ نو کو کس سمت میں لے جا رہے ہیں۔ گانوں، ڈراموں اور اشتہارات میں جو عریانی اور فحاشی دکھائی جا رہی ہے، وہ کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے زہر ہے۔نوجوانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جو شخص اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتا ہے، وہ اللہ کی خاص رحمت کا حقدار بنتا ہے۔ نگاہ نیچی رکھنا محض مذہبی فرض نہیں بلکہ خودی اور غیرت کی علامت ہے۔ایک “غالب مرد” وہ نہیں جو عورتوں کے پیچھے بھاگے، بلکہ وہ ہے جو اپنی خواہشات پر غالب آ جائے۔ ایک مضبوط مرد اپنی طاقت کو عزت، حفاظت اور قربانی میں ظاہر کرتا ہے، نہ کہ فحاشی اور شہوت پرستی میں۔جو قوم اپنی جوانی کو ضائع کر دے، اس کا مستقبل اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔ اگر ہم نے اپنی نسل کو بچانا ہے تو ہمیں حیا کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔یاد رکھو، ہوس ختم نہیں کی جا سکتی، مگر اسے قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہی ایمان کی اصل طاقت ہے۔ اور جو شخص اپنی خواہش پر قابو پا لے، وہ دراصل دنیا کی سب سے بڑی فتح حاصل کر لیتا ہے۔یہی انسانیت کا اصل معیار ہے کہ انسان اپنی حدود پہچانے، اپنے رب سے ڈرے، اور اپنی نگاہوں، دل اور عمل کو پاک رکھے۔ کیونکہ اصل مردانگی ضبط میں ہے، نہ کہ بےقابو خواہش میں۔
![]()