فرحان اللہ خلیل

ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ کسی کی محنت ضائع نہیں جاتی۔ یہ جملہ ہمارے بزرگوں کی زبان پر ہوتا تھا ، اساتذہ کی نصیحت میں شامل ہوتا تھا اور معاشرے کا ایک اخلاقی اصول مانا جاتا تھا۔ مگر اب دل چاہتا ہے کہ کوئی یہ جھوٹی تسلی دینا بند کرے۔ کیونکہ آج کے دور میں محنت ضائع ہوتی ہے۔ خلوص پامال ہوتا ہے۔ اور رشتے صرف ضرورتوں کے حساب سے جڑتے اور ٹوٹتے ہیں۔اب تعلقات خلوص پر نہیں بلکہ مفاد پر چلتے ہیں۔ جب کسی کو آپ کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ آپ کے آگے پیچھے ہوتا ہے، آپ کے ایک اشارے پر لبیک کہتا ہے، لیکن جیسے ہی اُس کا کام مکمل ہوتا ہے وہ آپ کو ایسے بھولتا ہے جیسے کبھی جانتا ہی نہ تھا۔یہی حال اداروں کا ہے، تنظیموں کا ہے اور سیاسی جماعتوں کا بھی۔ جب انہیں محنتی لوگوں کی ضرورت ہو تو انہی کے دم سے دن رات ترقی کرتے ہیں۔ جلسے، اجلاس اور تقریبات انہی لوگوں کے بل بوتے پر کامیاب ہوتی ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے ان کا مفاد پورا ہوتا ہے وہی لوگ بوجھ بننے لگتے ہیں۔ پھر نہ ان کی خدمات یاد رکھی جاتی ہیں، نہ تابعداری اور نہ ہی قربانیاں۔اور اس سارے عمل میں سب سے زیادہ نقصان کس کا ہوتا ہے؟اس بندے کا جس نے نیک نیتی سے کام کیا ہوتا ہے۔ جو خلوص کے ساتھ رشتے نبھاتا ہے۔ جو دن رات کسی کی بہتری کے لیے خود کو جھونک دیتا ہے۔ لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخر میں وہ اکیلا رہ جاتا ہے نہ شکریہ، نہ اعتراف، نہ مقام، نہ تسلی۔معاشرے میں اب ہر رشتہ تجارتی بن گیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ایسے جُڑتے ہیں جیسے کاروباری معاہدے ہوں ۔ آپ میرے کام آئیں میں آپ کو عزت دوں گا۔ کام پورا رشتہ ختم!”دل خون کے آنسو روتا ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی تعلقات کو اس قدر کمتر کر دیا گیا ہے۔ دوستی کا مطلب رہ گیا ہے جب تک میرے فائدے کی بات ہے تم میرے ہو۔ جب فائدہ ختم تو تم اجنبی ہو۔سیاستدانوں کو دیکھ لیں جب ان کی ضرورت ہو تو عام کارکن کی چاپلوسی بھی کرتے ہیں ۔ ان کے بچوں کے سروں پر ہاتھ بھی رکھتے ہیں تصاویر بھی بنواتے ہیں۔ مگر جب سیٹ مل جائے، اقتدار ہاتھ آ جائے تو وہی کارکن دفتر کے باہر دھکے کھاتا ہے۔ سالوں کی تابعداری چند سیکنڈوں میں رُل جاتی ہے۔مجھے اکثر وہ لوگ یاد آتے ہیں جو اداروں میں نیک نیتی سے کام کرتے ہیں۔ وہ دفاتر کو اپنا گھر سمجھتے ہیں نظام درست کرتے ہیں، ماتحتوں کے لیے راستے ہموار کرتے ہیں اور ایک روشن ماحول بناتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی *اوپر* والوں کو کوئی نیا چمکتا چہرہ ملتا ہے وہ ان مخلص لوگوں کو پرانی فائلوں کی طرح الماری میں بند کر دیتے ہیں۔انسان تھک جاتا ہے۔پھر وہ سوچتا ہے کہ شاید اکیلے رہنا ہی بہتر ہے۔نہ کسی کی ضرورت بنو، نہ کسی سے امید رکھو، نہ کسی کا حصہ بنو۔لیکن یہ بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ ہم ایک سماجی نظام میں جیتے ہیں۔ ہمیں روز طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور یہی مجبوری ہمیں پھر سے اُنہی مطلب پرست لوگوں کے بیچ دھکیل دیتی ہےجن سے بچ کر نکلنا چاہتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ آج کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ لوگ خودغرض ہو چکے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم نے مطلب پرستی کو معمول سمجھ لیا ہے۔ ہم اس رویے کو برداشت کرتے ہیں، سہتے ہیں اور کچھ دیر بعد خود بھی ویسے ہی بن جاتے ہیں۔کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ کوئی ایسی دنیا ہو جہاں انسانیت باقی ہو، تعلقات خلوص پر قائم ہوں جہاں اگر کوئی کسی کے لیے کچھ کرے تو اسے استعمال نہ کیا جائے بلکہ عزت دی جائے، شکریہ ادا کیا جائے، کم از کم یاد تو رکھا جائے!اب تو ہم ایسے دور میں آ گئے ہیں جہاں سچ بولنا بھی جرم لگتا ہے اور مخلصی دکھانا کمزوری۔یہ وقت بڑا عجیب ہے جناب!لوگ چہرے پر مسکراہٹ سجائے، دل میں نفرت چھپائے، صرف اپنے مفاد کے لیے رشتے نبھاتے ہیں۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا واقعی ہم اتنے گر گئے ہیں؟کیا ہم نے انسانیت کو فقط فائدے کے ترازو پر تولنا سیکھ لیا ہے؟کیا وہ وقت واپس نہیں آ سکتا جب رشتے بےلوث ہوتے تھے جب محنت کا صلہ عزت ہوتا تھا جب دوستی فائدے کے بغیر بھی ہوا کرتی تھی؟یہ سوال میرے نہیں آپ سب کے ہیں۔اگر آپ بھی ایسے تجربے سے گزرے ہیں، اگر آپ کی محنت کسی کے قدموں تلے روندی گئی، اگر آپ کے خلوص کا مذاق اُڑایا گیا تو جان لیجیے آپ اکیلے نہیں۔ہم سب اس معاشرتی بیماری کا شکار ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر ہم میں سے کچھ لوگ خلوص اور اصولوں پر ڈٹے رہیں تو شاید یہ بےحسی کا موسم ختم ہو جائے، شاید یہ مطلب پرستی کا عہد کچھ نرم پڑ جائے اور شاید آنے والی نسلیں تعلقات کو تجارت نہ سمجھیں بلکہ احساس کا نام دیں۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے