اکادمی ادبیاتِ پاکستان، اسلام آباد کے زیر اہتمام معروف شاعر، مزاح نگار اور استادِ سخن پروفیسر انور مسعود کے اعزاز میں ایک یادگار اور دل نشین تقریب بعنوان "اک دریچہ، اک چراغ: پروفیسر انور مسعود سے ملاقات” منعقد ہوئی۔فیض احمد فیض آڈیٹوریم نامور اہلِ قلم، معروف سماجی شخصیات اور شائقینِ ادب سے کچھ اس طرح بھرا ہوا تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ فضا میں خوشی، احترام اور محبت کی ایک خاص گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ مختلف چینلز کے نمائندگان نے تقریب کی بھرپور کوریج کی۔ پنجاب کالج اور لارنس کالج گھوڑا گلی کے طلبہ و طالبات نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ نوجوانوں نے شعروں پر داد و تحسین کے پھول برسائے اور پورے پروگرام میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ یوں یہ تقریب علم و ادب کے ساتھ ساتھ نسلِ نو کی ادبی آگہی کا خوبصورت مظہر بن گئی۔

تقریب کے صدر معروف شاعر و دانشور افتخار عارف تھے، جب کہ مہمانانِ خصوصی میں وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ و ثقافت جناب اورنگ زیب خان کھچی اور سیکرٹری قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن جناب اسد رحمان گیلانی شامل تھے۔ مہمانانِ اعزاز میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور محمد حمید شاہد نے اپنی موجودگی سے تقریب کو رونق بخشی۔ پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے افتتاحی کلمات ادا کیے، جب کہ نظامت کے فرائض شکیل جاذب نے خوش گفتاری اور برجستگی کے ساتھ انجام دیے۔ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اپنے خطاب میں کہا کہ جناب انور مسعود نے اپنی نو دہائیوں پر پھیلی زندگی علم، ادب اور محبت کی خدمت میں گزاری۔ وہ ایسے شاعر ہیں جنھوں نے قہقہوں کے دامن میں فکر کے چراغ جلائے۔ ان کی شاعری میں شگفتگی، شائستگی، درد مندی اور رقت کا ایسا امتزاج ہے جو قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انور مسعود اردو، فارسی اور پنجابی تینوں زبانوں کے ہمہ جہت شاعر ہیں، جن کا فن ہمارے قومی ورثے کا حصہ ہے۔

اس موقعے پر اکادمی کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتاب "انور مسعود: شخصیت اور فن” کی رونمائی بھی عمل میں آئی۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر شعیب خان نے کہا کہ پروفیسر انور مسعود پر لکھنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ ان کی شاعری عام انسان کے دکھ، خوشی اور تجربات کا ترجمان ہے۔ پروفیسر انور مسعود نے روزمرہ زندگی کے مناظر کو اپنے مشاہدے اور مزاح کی لطافت سے آفاقی معنی دیے۔ڈاکٹر فاخرہ نورین نے جناب انور مسعود کی فارسی، اردو اور پنجابی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "میلہ اکھیاں دا” میں پنجاب کی ثقافت، محبت اور خلوص کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر انور مسعود نے شائستگی اور درد مندی کے امتزاج سے مزاح کو ایک باوقار صنفِ سخن بنا دیا۔

ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کہا کہ انور مسعود صاحب لفظوں کے ایسے معمار ہیں جو ہنسی میں فکر، اور قہقہوں میں شعور پرو دیتے ہیں۔ ان کی مزاحیہ شاعری محض تفریح نہیں بلکہ فکری تربیت کا ذریعہ ہے۔محمد حمید شاہد نے کہا کہ جناب انور مسعود کے ہاں مزاح، درد اور شعور تینوں ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں ہنسی کے پیچھے گہرا انسانی دکھ اور معاشرتی بصیرت چھپی ہے۔ ان کی شاعری سماج کے آئینے میں انسانیت کا عکس ہے۔وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن جناب اورنگ زیب خان کھچی نے کہا کہ انور مسعود پاکستان کی ثقافتی روح کے شاعر ہیں۔ ان کے اشعار میں محبت، شگفتگی اور دانائی کی خوشبو ہے۔ انھوں نے انھیں ۹۰ویں سالگرہ پر مبارک باد دی اور کہا کہ ایسے شعرا قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔

جناب اسد رحمان گیلانی نے کہا کہ انور مسعود صاحب کی شاعری میں پاکستانی معاشرے کی زبان، مزاج اور مزاح ایک ساتھ بولتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مسرت کی بات ہے کہ یہاں نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ پروفیسر انور مسعود ہی کی طرح ہمارے لیے باعثِ فخر بنیں اور نام پیدا کریں۔جناب انور مسعود کے برادر نسبتی جناب شاہد اختر نے ان کے علمی و انسانی پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جب کہ ان کے صاحبزادے عمار مسعود نے تمام منتظمین اور شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان کے لوگ میرے والد سے محبت کرتے ہیں، اور میرے والد پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ اس سبب سے میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔”

صدارتی خطاب میں جناب افتخار عارف نے کہا کہ انور مسعود ہمارے زمانے کے مکمل شاعر ہیں، جو اردو، پنجابی اور فارسی تینوں زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں۔ ان کے کلام میں روحانیت، فکری گہرائی اور تہذیبی وقار جھلکتا ہے۔ انھوں نے ان کی مرحوم اہلیہ کے لیے دعائے مغفرت بھی کی۔پروفیسر انور مسعود نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ "میرا مسلکِ شعر یہ ہے کہ نئی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائی جائے۔ میں عوام کی زبان میں عوام کی بات کہتا ہوں تاکہ پڑھا لکھا شخص اور چھابڑی والا دونوں یکساں لطف اٹھائیں۔” انھوں نے کہا کہ مزاح دراصل دل کے صاف ہونے اور مزاج کی لطافت کا نام ہے۔ اس موقعے پر انھوں نے فارسی زبان کے چند دلچسپ الفاظ کے فرق بیان کیے، جن پر محفل قہقہوں سے گونج اٹھی۔

اختتام پر انور مسعود نے اپنی معروف اردو اور پنجابی شاعری سنائی، جس سے ہال کشتِ زعفران بن گیا۔ طلبہ اور حاضرین قہقہوں سے جھوم اٹھے، اور جب انھوں نے ’’امبڑی‘‘ نظم سنائی تو محفل اشک بار ہو گئی۔ یوں وہ لمحہ عملی تفسیر بن گیا کہ "کیا جانیے یہ شخص ہنسا دے کہ رُلا دے۔”جب تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تو طلبہ اور شائقینِ ادب نے انور مسعود کو گھیر لیا۔ کوئی آٹوگراف لینے میں مصروف تھا تو کوئی یادگاری تصویر بنوانے میں۔ دلچسپ منظر اُس وقت بنا جب لارنس کالج کے طلبہ بنیانیں ساتھ لائے، جو انور مسعود کی مشہور نظم "بنیان” کی مناسبت سے تھیں، اور انھوں نے انہی بنیانوں پر اپنے پسندیدہ شاعر کے دستخط لیے۔یوں یہ شام صرف ایک ادبی تقریب نہیں رہی بلکہ ایک یادگار لمحہ بن گئی — ہنسی، محبت، علم اور احترام کے رنگوں سے سجی ہوئی، جس میں استادِ سخن جناب انور مسعود خود ایک روشن چراغ کی طرح محور و مرکزِ محفل رہے۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے