پشاور (چیف رپورٹر) خیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبے کی موجودہ امن و امان کی صورتحال پر اہم “خیبر پختونخوا امن جرگہ” منعقد ہوا، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، قبائلی عمائدین، وکلا، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ جرگے میں تمام مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ صوبے میں دیرپا امن کے قیام کے لیے تمام سیاسی قوتوں اور اداروں کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔

اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی کا خطاب

اپنے ابتدائی کلمات میں اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی نے کہا کہ خیبر پختونخوا گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی اور بدامنی کا شکار ہے۔ ریاستی اداروں اور انٹیلیجنس نیٹ ورکس کے باوجود صوبے میں امن بحال نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشنز پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔ بابر سلیم سواتی نے واضح کیا کہ “فوجی آپریشن سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا، بلکہ حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔”انہوں نے کہا کہ اس جرگے کا مقصد سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں بلکہ اجتماعی مشاورت سے امن کی راہ تلاش کرنا ہے۔

اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ کا بیان

اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اور مستقل حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ “آج ہم سیاست سے بالاتر ہوکر صرف امن کے لیے جمع ہوئے ہیں، اور اگر اس مقصد کے لیے سڑکوں پر بھی نکلنا پڑا تو دریغ نہیں کریں گے۔”

پی ٹی آئی رہنما جنید اکبر کا مؤقف

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جنید اکبر خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا پچھلے 50 سال سے افغان جنگ کے اثرات بھگت رہا ہے۔ بدامنی کی وجہ سے صوبے کا انفراسٹرکچر تباہ اور نوجوان بے روزگار ہو چکے ہیں۔انہوں نے مرکز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “ہمیں ایک فیصد این ایف سی شیئر دیا جاتا ہے، لیکن ہماری قربانیوں کا کوئی اعتراف نہیں کیا جاتا۔ مرکز ہمیں ہمارا حق زکوٰۃ یا خیرات کی طرح دیتا ہے، جو افسوسناک ہے۔”

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کا خطاب

گورنر فیصل کریم کنڈی نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کا مسئلہ اجتماعی نوعیت کا ہے اور اس کے حل کے لیے صوبہ، مرکز اور عسکری اداروں کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ “اگر اسلام آباد سے بات کرنی ہے تو دلائل سے بات کریں گے۔ مرکز کے ساتھ تعاون کے لیے ہر وقت تیار ہوں۔”انہوں نے کہا کہ ماضی کو بھلا کر مستقبل کی نسلوں کے لیے بہتر فیصلے کرنے ہوں گے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل افریدی کا بیان

وزیراعلیٰ سہیل افریدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے صوبے کے عوام سے امن چھین لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “دہشت گردی کے بارے میں بند کمروں کے فیصلے اب عوامی سطح پر کرنے ہوں گے تاکہ دیرپا حل ممکن ہو۔”انہوں نے مزید کہا کہ مرکز خیبر پختونخوا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہا ہے۔ “این ایف سی کے تحت 400 ارب روپے مرکز کے ذمے واجب الادا ہیں، مگر تاحال ادا نہیں کیے گئے۔”

سابق اسپیکر اسد قیصر کا مؤقف

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ گزشتہ 40 سال سے صوبہ وار آن ٹیرر اور جہاد کے نام پر تباہی کا سامنا کر رہا ہے۔ کاروبار ختم، فیکٹریاں بند اور نوجوان بے روزگار ہو چکے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ افغانستان سے تعلقات صرف سفارتی چینل کے ذریعے استوار کیے جائیں اور مذاکراتی عمل کو ناکام نہ ہونے دیا جائے۔

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا عطا الرحمن کا خطاب

مولانا عطا الرحمن نے کہا کہ ہم سیاست دان ہونے کے باوجود عوام کو امن دینے میں ناکام رہے ہیں۔ “اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے، مگر ہم اپنے عوام کو پرامن ماحول دینے سے قاصر ہیں۔”

افتاب احمد خان شیرپاؤ کے نکات

قومی وطن پارٹی کے سربراہ افتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں امن نہ ہو تو انویسٹمنٹ، ترقی یا روزگار ممکن نہیں۔انہوں نے وزیراعلیٰ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ “مرکز کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں، ان کی میٹنگز میں عدم شرکت افسوسناک ہے۔”انہوں نے تجویز دی کہ صوبائی حکومت سی ٹی ڈی کو مضبوط کرے، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرے اور فاٹا میں جوڈیشری اور پولیس نظام قائم کرے۔

سراج الحق کی تجویز

سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، دنیا کی تمام جنگیں بالآخر مذاکرات سے ختم ہوئیں۔ انہوں نے زور دیا کہ “مرکز اور صوبے کو ایک پیج پر آکر عوامی مفاد میں امن کے لیے کام کرنا ہوگا۔”

میاں افتخار حسین کا سخت مؤقف

اے این پی کے مرکزی رہنما میاں افتخار حسین نے کہا کہ اگرچہ پچھلے 13 سال سے پی ٹی آئی حکومت میں ہے، لیکن امن کے لیے جرگہ بلانے پر وہ قابلِ تعریف ہیں۔انہوں نے کہا کہ “صوبائی حکومت کو دہشت گردی کے مراکز ختم کرنے، فنڈنگ روکنے اور امن کے عمل کی اونر شپ لینے کی ضرورت ہے۔ صرف زبانی دعووں سے امن نہیں آئے گا۔”انہوں نے مزید کہا کہ “جب تک صوبائی حکومت مرکز کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات نہیں کرے گی، عوام کو سکون نصیب نہیں ہوگا۔”

سابق وزیراعلیٰ محمود خان کا بیان

پی ٹی آئی کے سابق وزیراعلیٰ محمود خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر بیٹھنا ہوگا کیونکہ آنے والی نسلوں کو جواب ہمیں دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “قیامِ امن اور معاشی استحکام کے لیے وزیراعلیٰ کو مرکز کے ساتھ مل کر پالیسی بنانی چاہیے تاکہ صوبے کے عوام کو محفوظ مستقبل دیا جا سکے۔”

خلاصہ:

خیبر پختونخوا امن جرگے میں تمام سیاسی و سماجی رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ صوبے میں پائیدار امن صرف بات چیت، تعاون، اور مشترکہ فیصلوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ تمام مقررین نے مطالبہ کیا کہ مرکز صوبائی حقوق کی فراہمی میں سنجیدگی دکھائے، جبکہ صوبائی حکومت سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر امن کے ایجنڈے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرے۔

Loading

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے