
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن خیبر پختون خوا کے صدر ڈاکٹر اسفندیار نے کہا ہے کہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے ڈاکٹروں کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے اور صوبائی حکومت کو ہیلتھ ایمرجنسی کو کامیاب بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ وہ پشاور پریس کلب میں جنرل سیکرٹری ڈاکٹر اصف خان اور دیگر عہدیداران کے ہمراہ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
ڈاکٹر اسفندیار نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کی جانب سے ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان قابلِ تحسین ہے، تاہم جب تک اسپتالوں کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں، ایمرجنسی محض سیاسی نعرہ ہی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں پر چھاپے مار کر عملے کو معطل کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، کیونکہ سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، عملے کی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبے بھر میں آئی سی یو بیڈز کی قلت کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے آنے والے مریض بروقت علاج نہ ملنے کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، مگر اس اہم مسئلے پر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے الزام لگایا کہ پچھلے 12 سالوں کے دوران ڈاکٹرز کو سیاسی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈی ایچ کیو تیمرگرہ میں کرپشن بے نقاب کرنے پر ڈاکٹر نجیب، ڈاکٹر ماجد اور ڈاکٹر رفیع کو معطل کیا گیا، حالانکہ سروس ٹریبونل نے انہیں ریلیف بھی فراہم کر دیا تھا۔
ڈاکٹر اسفندیار کے مطابق 2017 کے بعد سے ٹی ایم اوز، ایچ اوز، ایم اوز اور ایم ٹی آئی ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، جبکہ صوبے میں 40 ہزار روپے سالانہ پروفیشنل ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے جو پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر پہلے ہی 11 مختلف قسم کے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، مگر اس کے باوجود انہیں تنخواہوں میں اضافے کا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا جا رہا۔
ادھر ڈاکٹر اصف خان نے کہا کہ صحت کارڈ کے تحت دیے جانے والے ٹھیکوں میں وسیع پیمانے پر بے ضابطگیاں ہو رہی ہیں، میڈیسن کمپنیاں غیر معیاری اور دو نمبر ادویات فراہم کر رہی ہیں جبکہ اس تمام بدعنوانی کی تحقیقات ضروری ہیں۔ ان کے مطابق صحت کارڈ پروگرام میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کو حکومت کی جانب سے دی گئی رقم بھی تاحال ادا نہیں کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے کئی سالوں سے ایم ٹی آئی اسپتال آؤٹ ڈور آڈٹ سے گریزاں ہیں اور کئی ادارے ایکٹنگ ایڈمنسٹریشن پر چل رہے ہیں، جس سے بدعنوانی کے امکانات مزید بڑھ رہے ہیں۔
پریس کانفرنس میں ینگ ڈاکٹرز نے مطالبہ کیا کہ کوہاٹ میڈیکل کالج کی فیسیں فوری طور پر کم کی جائیں، کیونکہ سرکاری کالج ہونے کے باوجود اس کی فیس چھ لاکھ روپے ہے جبکہ دیگر سرکاری کالجز ایک لاکھ روپے وصول کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کوہاٹ میڈیکل کالج کے ہاؤس افسران گزشتہ تین ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، جس کی وجہ سے ان کے گھروں میں معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
ڈاکٹر اسفندیار اور ڈاکٹر اصف خان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹرز کی تنخواہیں فوری جاری کی جائیں، پروموشن کے عمل کو شفاف بنایا جائے، معطل کیے گئے ڈاکٹروں کو بحال کیا جائے اور صحت کارڈ کے نام پر ہونے والی مبینہ لوٹ مار کا فوری نوٹس لیا جائے۔
![]()