پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ایک ایسا نظام پروان چڑھا ہے جس نے ریاست کے ہر شعبے پر گہرا اثر ڈالا۔ یہ ایک دن کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ دہائیوں پر پھیلا ہوا ایک ایسا بندوبست تھا جس کی جڑیں آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیلتی چلی گئیں۔ سیاست، کاروبار، بیوروکریسی، ٹھیکیداری، سرکاری فیصلے، حساس تعیناتیاں۔ ہر سمت میں ایک غیر محسوس مگر بڑا کردار جنم لیتا گیا، یہاں تک کہ ریاست کے اندر ایک نیا اسٹرکچر وجود میں آگیا۔

ریاستیں اس وقت کمزور ہوتی ہیں جب طاقت کا توازن بگڑ جائے، اور طاقت ایک جگہ جمع ہو کر باقی شعبوں کو سانس لینے ہی نہ دے۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کہیں مارشل لا کے ذریعے اور کہیں سیاسی مداخلت کے ذریعے سسٹم کو اس قدر تبدیل کیا گیا کہ آج بھی قوم توازن کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ 75 برس گزر گئے، مگر اصل سوال وہیں کا وہیں کھڑا ہے کہ ریاست کا مالک عوام ہیں یا طاقت کے وہ مراکز جو وقت کے ساتھ مضبوط ہوتے گئے؟

ملک کے مختلف طبقات میں برسوں سے یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کاروبار، درآمدات، برآمدات، سمگلنگ، زمینوں کی الاٹمنٹ، ٹھیکیداری اور بڑے منافع بخش منصوبے خاص لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز رہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک "پراسرار نیٹ ورک” ہے، کبھی اسے غیر مرئی طاقت کا نام دیا جاتا ہے، اور کبھی اسے ریاست کے اندر ریاست کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تمام تصورات عوامی رائے اور مشاہدے سے جنم لیتے ہیں، لیکن یہی سوال بنیادی ہے کہ آخر عوام کی رٹ کہاں کھڑی ہے؟

ملک میں طاقت کی یہ پرانی روایت اس وقت شروع ہوئی جب ریاستی ادارے کمزور تھے، سیاست ناتجربہ کار تھی اور آئینی عمل ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔ اس خلا کو طاقتور گروہوں نے پُر کیا اور وقت کے ساتھ وہ اتنے مضبوط ہو گئے کہ اب ان کے بغیر ریاست کا کوئی بڑا فیصلہ آگے نہیں بڑھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی معاشرہ اس بحث میں تقسیم ہو چکا ہے کہ اصل حکمرانی کس کے ہاتھ میں ہے۔

یہ روایت صرف اندرونی قوتوں تک محدود نہیں رہی بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملک سے باہر سیٹل ہونا بھی ایک رواج بنتا گیا۔ بڑے بڑے عہدیدار، جنہوں نے پوری عمر اس سسٹم کا حصہ بن کر گزاری، انہوں نے بیرونِ ملک اپنی خوشحال زندگیاں بنا لیں۔ یہ سوال آج بھی پاکستانیوں کے ذہن میں گونجتا ہے کہ اگر سب کچھ ملک کے لیے کیا تھا تو پھر بڑھاپا بیرونِ ملک گزارنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

طاقت کا یہ ڈھانچہ اس قدر مستحکم ہوا کہ جو بھی اس کی اصلیت پر سوال اٹھانے کی کوشش کرتا، یا حقائق سامنے لانے کی جسارت کرتا، وہ یا تو منظر سے ہٹا دیا جاتا، یا اس کی آواز کو خاموش کر دیا جاتا۔ یہ احساس معاشرے میں خوف بھی پیدا کرتا ہے اور بے بسی بھی۔ جب ریاستی معاملات پر سوال اٹھانا جرم سمجھا جائے تو قومیں ترقی کی بجائے جمود کا شکار ہو جاتی ہیں۔

پاکستان کے 75 سالہ سفر میں تشویشناک پہلو یہ بھی رہا کہ دہشت گردی کو کبھی “خطرہ” بتایا گیا، کبھی “چیلنج”، اور کبھی اسے ایک ایسے کھیل کا نام دیا گیا جس میں باہر سے آنے والی مالی امداد نے پوری پالیسیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ کبھی اس بیانیے سے ڈالر کمائے گئے، کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے بیرونی تعلقات کو متاثر کیا، اور کبھی اسی جنگ کو اندرونی سیاست کا حصہ بنایا گیا۔

یہ سلسلہ اس قدر آگے بڑھ گیا کہ قوم کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دہشت گردی کے نام پر کبھی پالیسیاں بنائی گئیں، کبھی حکمتِ عملی، کبھی آپریشن، مگر نتیجہ وہی نکلا اربوں ڈالر آئے، ہزاروں جانیں گئیں، مگر امن آج بھی غیر یقینی کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ جب ایک قوم دہائیوں سے اسی دائرے میں گھوم رہی ہو تو سوال جنم لیتا ہے کہ اصل فائدہ کس نے اٹھایا اور اصل نقصان کس نے سہا؟

وقت گزرنے کے ساتھ تصویر اور دھندلی ہوتی گئی۔ جس پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا، وہ کبھی غدار ٹھہرا، کبھی محب وطن۔ کبھی دشمن بنا دیا گیا، کبھی گلے سے لگا لیا گیا۔ یہ تضادات ہی اس پورے نظام کی کمزوری کا ثبوت ہیں۔ ایک مستقل پالیسی نہ بن سکی، ایک واضح سمت نہ مل سکی، اور عوام آج بھی انہی سوالوں کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔

اب حال یہ ہے کہ معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ ہر دوسرے شخص کو کسی نہ کسی عنوان کے تحت مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ "دہشت گرد” کا لفظ اب صرف ایک اصطلاح نہیں رہا بلکہ سیاسی اور سماجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا ایک حربہ بن چکا ہے۔ جب لیبلنگ سچ سے زیادہ طاقتور ہو جائے تو انصاف مر جاتا ہے۔

دوسری طرف زمینوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ بھی ہمیشہ متنازع رہا ہے۔ طاقتور حلقے جب چاہیں اُس علاقے کی زمینیں اپنی مرضی سے تقسیم کریں، قیمت مقرر کریں, اور پھر کئی دہائیوں تک اس کے اثرات معاشرے پر پڑتے رہیں۔ عام آدمی اپنی پوری زندگی میں ایک چھوٹا سا گھر بھی نہیں بنا پاتا، مگر طاقتور طبقات لاکھوں کنال زمین باآسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ صورتِ حال معاشرتی انصاف کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔

ریاستیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب وہ ’قانون کی حکمرانی‘ کو سب پر برابر لاگو کریں، مگر پاکستان میں طاقتور کے لیے قانون الگ، کمزور کے لیے الگ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا اعتماد ریاستی اداروں سے ہٹتا جا رہا ہے۔ جب انصاف ایک طبقے کی جیب میں چلا جائے تو قوموں کے مستقبل پر اندھیرے چھا جاتے ہیں۔

مارشل لا کی تاریخ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی رہی۔ جب بھی اقتدار پر قبضہ کیا گیا، اسے ملکی مفاد کا نام دیا گیا۔ کبھی جمہوریت بچانے کے لیے، کبھی بدامنی روکنے کے لیے، مگر اس حصل میں قوم مزید تقسیم ہوتی گئی۔ آج جب بظاہر مارشل لا نہیں، مگر عوام میں یہ احساس ضرور موجود ہے کہ فیصلے وہی ہوتے ہیں جو طاقتور چاہیں، تو پھر سوال یہ ہے کہ فرق کیا رہ گیا؟

کئی حلقوں میں یہ بحث عام ہے کہ اب نظام بدل کر ایک نئی قسم کی حکمرانی نے جگہ لے لی ہے۔ یہ حکمرانی نہ جمہوری ہے، نہ مارشل لا بلکہ ایک ایسی بالادستی ہے جسے بعض لوگ "نیا بادشاہت نما کنٹرول” قرار دیتے ہیں۔ جب اقتدار شخصیات کے گرد گھومنے لگے اور شفافیت ختم ہو جائے، تو ملکوں کا مستقبل غیر یقینی ہو جاتا ہے۔

پاکستان جس موڑ پر کھڑا ہے، وہاں سب سے بڑا مسئلہ "طاقت کا غیر متوازن استعمال” ہے۔ طاقت جتنی زیادہ جمع ہو گی، اتنی ہی زیادہ احتساب سے دور ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی کھل کر سوال نہیں کرتا۔ ہر شخص خوف میں جیتا ہے کہ اگر زبان کھولی تو نقصان اٹھانا پڑے گا۔

قومی ترقی صرف سڑکوں، پلوں یا عمارتوں سے نہیں ہوتی، بلکہ شفاف اداروں، آزاد پالیسیوں، اور عوامی اعتماد سے ہوتی ہے۔ جب تک اداروں میں توازن نہیں آئے گا، اور جب تک فیصلے عوام کی طاقت سے نہیں ہوں گے، تب تک پاکستان اپنی اصل سمت دریافت نہیں کر سکے گا۔

پاکستان کے مسائل کا حل طاقت کے مرکز کو بدلنے میں نہیں، بلکہ طاقت کو قانون اور عوام کے تابع کرنے میں ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس سے دنیا کے بہترین ممالک مضبوط ہوئے۔ قومیں تب بنتی ہیں جب ریاست کی بنیاد انصاف پر کھڑی ہو۔

قرآن کہتا ہے:
"بے شک اللہ عدل کرنے اور انصاف قائم رکھنے کا حکم دیتا ہے” (سورہ نحل، آیت 90)

اور رسول ﷺ نے فرمایا:
"ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہوگا” (ترجمہ حدیث)

پاکستان کے لیے اصل راستہ یہی ہے، انصاف، توازن، احتساب، اور عوامی اختیار۔ جب قومیں انصاف کے ساتھ چلتی ہیں تو ادارے خودبخود اپنی حدود پہچان لیتی ہیں، اور جب ادارے مضبوط ہوں تو ریاست کبھی کمزور نہیں ہوتی۔

اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو اسے طاقت کے کھیل سے نکل کر قانون اور شفافیت کی طرف جانا ہوگا۔ ورنہ آئندہ 75 سال بھی انہی سوالوں میں گزر جائیں گے اور حقیقت ایک قدم آگے نہیں بڑھے گی۔

یہ ملک تب مضبوط ہو گا جب طاقتور اور کمزور دونوں کے لیے ایک ہی قانون ہو۔ جب عوام آواز اٹھانے کی آزادی رکھیں۔ جب فیصلے بند کمروں میں نہیں، عوامی مفاد میں ہوں۔ یہی راستہ پاکستان کو اس اندھیری سرنگ سے باہر نکال سکتا ہے۔

پاکستان کو نئے آغاز کی ضرورت ہے، مگر یہ آغاز صرف تب ممکن ہے جب قوم سچ کا سامنا کرے اور ریاست اپنی ترجیحات درست کرے۔ آج اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو آنے والی نسلیں بھی اسی نظام کے بوجھ تلے جیتی رہیں گی۔

Loading

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے