تحریر:- عبدالجلال قمرال

رین حمزہ علی کی کتاب” راکھ میں دبی چنگاری ” کہانیوں کا مجموعہ ہے، جس کی طباعت اور سماج کے روبرو پیش کرنے کے لئے خسرو فاؤنڈیشن اور کنوینر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صاحب اور ان کی ٹیم کی محنت و کاوش شامل ہے۔۔۔۔۔
کتاب کا ٹاییٹل عمدہ ہے ، 65 صفحات پر مبنی کتاب اپنے اندر ایک دنیا سمیٹی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر ورق سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ عورت اگر ایک چنگاری ہے جو راکھ میں دبی ہوئی ہے لیکن وہ اپنے اوپر ہونے والی تمام ناانصافیوں ،ظلم کے خلاف کھڑی بھی ہوسکتی ہے اور ایک شعلہ بن کر ابھر سکتی ہے ۔۔۔اندرونی صفحات پرنٹنگ کے حساب سے نہایت خوبصورت ۔۔۔۔۔۔
خسروفاؤنڈیشن نۓ قلمکار کو نہ صرف موقع دے رہا ہے بلکہ ادبی تخلیقات کو قارئین تک پہنچانے کا ذریعہ بھی ہے ۔۔۔۔۔ معاشرتی شعور اور فکری بیداری کو فروغ دینے کی ایک مؤثر کوشش بھی ہے۔۔۔۔۔ ادب اور ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے مضبوط اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔یہ ادارہ اخسرو فاؤنڈیشن اس بات کا ثبوت ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔۔۔۔۔مبارک باد کے مستحق ہیں خسروفاؤنڈیشن اور ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صاحب اور ان کی ٹیم۔۔۔۔۔
کتاب "راکھ میں دبی چنگاری” اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ جس میں عورت، معاشرہ، مذہب اور رسم و رواج جیسے اہم موضوعات کو نہایت باریکی کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ کتاب میں پیش کیے گئے کردار اور ان کے تجربات حقیقی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں، جو قاری کو نہ صرف سوچنے بلکہ محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ہر کہانی عورت کے وقار، جدوجہد اور معاشرتی رکاوٹوں کے گرد گھومتی ہے، اور یہ دکھاتی ہے کہ سماجی رویوں میں تبدیلی لانا کس قدر ضروری ہے۔

کتاب کی مرکزی کہانیاں، جیسے عورت کی کہانی، بیوہ کی چادر اور کوکھ کا درد، عورت کے حقوق، وقار اور معاشرتی ناانصافیوں کو بے باکی سے سامنے لاتی ہیں۔ نسرین حمزہ علی نے معاشرت میں عورت کی زندگی کے پیچیدہ حقائق کو بخوبی بیان کیا ہے۔ بیوہ خواتین کی جدوجہد، ماں بننے کے درد، اور اپنے بچوں اور خود کے لیے ایک بہتر زندگی کے لیے ان کی کوشیشیں قاری کے دل میں ہمدردی اور احترام پیدا کرتی ہیں۔ یہ کہانیاں عورت کے وقار اور خودمختاری کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں اور معاشرت میں برابری کے پیغام کو مضبوط کرتی ہیں۔

کتاب کی دیگر کہانیاں، جیسے بہار آنے تک اور طوفانوں میں چراغ جلتے ہیں، محبت، رفاقت اور انسانی تعلقات کے نازک پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں۔ یہاں محبت صرف رومانوی جذبات تک محدود نہیں بلکہ انسانی ہمدردی، اعتماد کی علامت بھی ہیں۔۔۔۔ مصنفہ نے کرداروں کے جذبات کو اتنی خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ قاری خود کرداروں کی خوشی اور غم میں شریک ہوتا ہے۔ محبت اور تعلقات کی پاکیزگی کی یہ تصویر کتاب کو نہ صرف ادبی لحاظ سے اہم بناتی ہے بلکہ معاشرتی تعلیم اور انسانی رویوں کی عکاسی بھی کرتی ہیں

کتاب میں سماجی شعور اور انصاف کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ بہتر سماج کی تعمیر اور اسلام اور عورت جیسی کہانیاں معاشرت میں عورت کے حقوق، تعلیم اور آزادی کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ نسرین حمزہ علی نے مذہب اور رسم و رواج کے نام پر ہونے والی ناانصافیوں کو بے نقاب کیا ہے اور یہ دکھایا ہے کہ ایک مضبوط، منصف اور ہمدرد معاشرہ صرف اس وقت ممکن ہے جب عورت کو مساوی حیثیت دی جائے اور ہر فرد اپنی ذمہ داری کو پہچانے۔

کتاب میں تاریخی اور ثقافتی پہلوؤں کی بھی اہمیت نظر آتی ہے، خاص طور پر خسرو فاؤنڈیشن: ایک نئی پہل کے ذریعے، جس میں ہندوستانی تہذیب اور حضرت امیر خسرو کی شخصیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ حضرت امیر خسرو کی زندگی میں صوفیانہ تصوف، ادب، موسیقی اور انسانی محبت کی ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔ یہ مضمون ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی اتحاد اور محبت کی روح کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کا بنیادی ذریعہ ہے۔ نسرین حمزہ علی نے تاریخی اور ثقافتی پہلوؤں کو موجودہ معاشرتی مسائل کے ساتھ جوڑا ہے تاکہ قاری ان سے سبق حاصل کر سکے۔۔۔۔۔

کتاب کی ادبی اہمیت بے حد نمایاں ہے۔ نسرین حمزہ علی کی زبان و بیان، جملوں کی روانی اور کردار نگاری کی قوت اسے اردو ادب میں ممتاز بناتی ہے۔ ان کے انداز میں جذبات کی لطافت اور گہرائی دونوں موجود ہیں، جو قاری کو کہانی کے ہر لمحے میں کھینچ لیتی ہے مطالعہ کے دوران نہ صرف ادبی لطف حاصل ہوتا ہے بلکہ معاشرتی مسائل اور انسانی رویوں کے بارے میں بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔۔۔۔

مجموعی طور پر راکھ میں دبی چنگاری ایک ایسی کتاب ہے جو معاشرتی شعور، عورت کے حقوق، محبت اور انسانی تعلقات کے مختلف پہلوؤں کو بہترین انداز میں پیش کرتی ہے۔ ہر کہانی قاری کو زندگی کے مختلف رنگوں اور پیچیدہ حالات سے روشناس کراتی ہے اور اسے انسانی ہمدردی، اور سماجی ذمہ داریوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ کتاب میں دکھائے گئے کردار نہ صرف ادبی لحاظ سے مضبوط ہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی پہلوؤں سے بھی قابل تقلید ہیں۔

یہ کتاب نہ صرف اردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے بلکہ معاشرتی شعور کو بیدار کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ نسرین حمزہ علی نے اپنی کہانیوں کے ذریعے عورت، محبت، انصاف اور انسانی تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ خسرو فاؤنڈیشن کی کاوشوں کی بدولت یہ کتاب قارئین تک پہنچی اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ قاری اسے پڑھ کر اپنی سوچ، جذبات اور معاشرتی ذمہ داریوں میں بہتری لاۓ کا۔۔۔

کتاب کی ہر کہانی ایک چنگاری کی مانند ہے، جو راکھ میں دبے ہوئے جذبات اور حقائق کو منظر عام پر لاتی ہے۔ یہ چنگاریاں قاری کو نہ صرف فکر و تدبر کی دعوت دیتی ہیں بلکہ اسے اپنے معاشرتی کردار اور ذمہ داریوں کے بارے میں بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ راکھ میں دبی چنگاری اردو ادب کے لیے ایک روشن مثال ہے، جو نہ صرف ادبی ذوق کو تسکین بخشتی ہے بلکہ معاشرتی بیداری اور انسانی ہمدردی کے فروغ میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔

Loading

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے