
دنیا کی چمک دمک ہمیشہ انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ خاص طور پر وہ شخص جو غربت، بے روزگاری اور مشکلات میں گھر کر زندگی گزار رہا ہو، اُس کے لیے بیرونِ ملک جانا کسی خواب سے کم نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ بس ایک ویزا ہاتھ لگ جائے تو قسمت بدل جائے گی، مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ سخت، کڑوی اور عبرت ناک ہوتی ہے۔
کچھ مہینے پہلے میں ایک حجام کی دکان پر بیٹھا تھا۔ وہاں کا مالک ایک نہایت سیدھا، خوش مزاج پاکستانی تھا، جس کے ساتھ میری پرانی سلام دعا تھی۔ اُس دن وہ فون پر کسی سے بڑی سنجیدگی سے بات کر رہا تھا۔ آواز میں فکر تھی، الفاظ میں غصہ بھی۔ وہ کہہ رہا تھا: “بھائی، تمہیں ایک جگہ ڈیوٹی پر بھیجا تھا، مگر تم واپس آگئے، اب میں کیا کر سکتا ہوں؟”جب اُس نے فون بند کیا تو میں نے تجسس سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ تب اُس نے ایک ایسی کہانی سنائی جو آج ہزاروں پاکستانیوں کی داستان ہے۔
کہنے لگا، “یہ بندہ پاکستان میں ایک کامیاب جیولری شاپ چلاتا تھا اور زندگی میں کبھی مزدوری کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ لاہور کے ایک ایجنٹ نے اسے ایسے رنگین خواب دکھائے کہ دل خوش ہو جائے۔ کہا، ‘بس ایک بار برطانیہ پہنچ جاؤ، تمہیں وہاں آرام دہ ڈیوٹی ملے گی، تمہارے بچوں کا مستقبل سنور جائے گا، وہ بہترین تعلیم حاصل کریں گے، گھر شاندار ہوگا، اپنی گاڑی ہوگی، اور تم ایک مزے کی زندگی گزارو گے۔’
ایجنٹ کے ان وعدوں نے اُس کے دل کو جیت لیا۔ وہ سمجھنے لگا کہ قسمت اس کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔ پیسے کی چمک اور خوشحال مستقبل کے خوابوں نے اسے اندھا کر دیا۔ اس نے اپنے زیورات بیچے، زمین گروی رکھی، قرض لیا، حتیٰ کہ اپنے بچوں کی جمع پونجی تک لگا دی۔ تقریباً پچانوے لاکھ سے ایک کروڑ روپے دے کر وہ کیرر ویزا پر برطانیہ آ گیا۔مگر جب وہ لندن کے ایئرپورٹ پر اترا، تو حقیقت نے اس کے سارے خواب توڑ ڈالے۔ جس نرسنگ ہوم کا وعدہ کیا گیا تھا، اس کا تو نام و نشان تک نہیں تھا۔ وہ بندہ حیران و پریشان تھا، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کہاں جائے، کس سے مدد مانگے۔
اُس نے فوراً اپنے ایجنٹ کو فون کیا تو جواب ملا: “بھائی، میرے پاس بھی کوئی ڈیوٹی نہیں ہے، خود دیکھ لو کچھ بندوبست کر لو، میں بھی ہاتھ سے کام کر رہا ہوں۔” یہ سن کر اس کے ہوش اڑ گئے۔ جس پر اس نے زندگی بھر کی کمائی لٹا دی تھی، وہ اب منہ موڑ چکا تھا۔وہ شخص سڑکوں پر مارا مارا پھرنے لگا۔ جیب میں نہ پیسے، نہ رہائش، نہ کوئی قانونی کام۔ آخرکار وہ حجام، جس کی دکان پر میں بیٹھا تھا، اُس پر ترس کھا کر بولا: “ایک بلڈر ہے، اس کے ساتھ مزدوری کر لو، کچھ نہ کچھ گزارہ ہو جائے گا۔”
پہلے دن جب وہ مزدوری پر گیا، تو شام کو اس نے پاکستان میں اپنی ماں کو فون کیا۔ روتے ہوئے کہا، “اماں، میں نے سوچا تھا کہ برطانیہ جاؤں گا تو عزت اور سکون ملے گا، مگر یہاں تو مزدور بن کر رہ گیا ہوں۔ میں نے کبھی اینٹ نہیں اٹھائی تھی، آج پتھر توڑ رہا ہوں۔”یہ الفاظ دل چیر دینے والے تھے۔ اُس کی ماں کے آنسو بہتے رہے، اور بیٹا دوسری طرف اپنی قسمت پر روتا رہا۔ اُس نے حجام سے کہا کہ “میرے لیے کوئی دوسری نوکری ڈھونڈ دو، میں یہ کام نہیں کر سکتا۔” مگر اس کا ویزا صرف کیرر جاب کے لیے تھا، کسی اور کام کی اجازت ہی نہیں تھی۔
یہ صرف ایک شخص کی نہیں بلکہ ہزاروں پاکستانیوں کی کہانی ہے۔ وہ سب ایک ہی خواب دیکھتے ہیں کہ پردیس میں قدم رکھتے ہی خوشیاں گلے لگیں گی۔ مگر جو لوگ ایجنٹوں کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ کر لیتے ہیں، اُن کے لیے یہ خواب عذاب بن جاتے ہیں۔ایجنٹ ایسے بھیڑیے ہیں جو سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ غربت میں تڑپتا شخص اپنی آخری امید بھی بیچنے کو تیار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جھوٹے ویزے، جعلی آفر لیٹرز اور فرضی کمپنیوں کے نام پر لاکھوں روپے بٹورتے ہیں۔
ان کا ضمیر کب کا مر چکا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک گھر برباد ہو گا، بچے بھوکے رہیں گے، ماں کا بیٹا روئے گا، مگر ان کے لیے یہ سب محض “کاروبار” ہے۔حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ایسے ایجنٹوں کے خلاف سخت کارروائی کرے، مگر اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ عوام خود ہوش کے ناخن لیں۔ خواب دیکھنا برا نہیں، مگر اندھے ہو کر خواب دیکھنا خطرناک ہے۔
یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ قسمت کبھی دھوکے سے نہیں بدلتی۔ کامیابی صرف اُن کے حصے میں آتی ہے جو ایمان داری اور محنت سے اپنی زندگی سنوارتے ہیں۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:“اور دھوکے سے کسی کا مال مت کھاؤ۔”(سورۃ البقرہ: آیت 188 — ترجمہ)اور نبی ﷺ نے فرمایا:“جو شخص دھوکہ دیتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں۔”(صحیح مسلم — ترجمہ)
یہ الفاظ ہمارے لیے آئینہ ہیں۔ اگر ہم نے ان پر غور نہ کیا تو آنے والی نسلیں بھی انہی اندھیروں میں بھٹکتی رہیں گی۔ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ عزت محنت سے بنتی ہے، نہ کہ شارٹ کٹ سے۔ یہ دنیا جھوٹے وعدوں سے بھری ہے، مگر اصل روشنی سچائی اور صبر کے راستے میں ہے۔بیرونِ ملک جانے سے پہلے حقیقت جاننا ضروری ہے۔ نہ ہر ویزا حقیقت ہوتا ہے، نہ ہر ایجنٹ مددگار۔ کبھی کبھی ایک غلط فیصلہ پوری زندگی کا سکون چھین لیتا ہے۔
وہ سکون جو وطن کے صحن میں، ماں کے چہرے پر، اور اپنوں کی مسکراہٹ میں ہوتا ہے، وہ پردیس کی چمکتی سڑکوں پر نہیں ملتا۔اگر یہ کہانی آئندہ نسلوں کے لیے کوئی پیغام رکھتی ہے تو وہ یہی ہے کہ محنت کرو، مگر ایمان داری کے ساتھ۔ خواب دیکھو، مگر حقیقت کے سائے میں۔ ورنہ خواب بھی آنکھوں کے آنسو بن جاتے ہیں۔
![]()