ایکسپورٹ کے شعبے میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے شوہر ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں، پریس کانفرنس
پشاور (چیف رپورٹر) پشاور کے علاقہ ورسک روڈ عاشق آباد کی رہائشی روزینہ بیگم نے اپنے بچوں عبدالصمد اور عماد ریاض کے ساتھ پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے شوہر کئی دہائیوں سے فرنیچر ایکسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں لیکن گزشتہ 10 سالوں سے انڈونیشیا کی جیل میں سزائے موت کی سزا قید کاٹ رہے ہیں۔روزینہ بیگم نے بتایا کہ 2016 ء میں شوہر کومنشیات کے جھوٹے کیس میں پھنسایا گیا، انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ میرے شوہر محمد ریاض زیادہ تر ایکسپورٹ ترکی، سائپرس جرمنی، تھائی لینڈ، ملیشیاء اور انڈونیشیا کرتے تھے۔2013ء سے ایکسپورٹ کیلئے انہوں نے انڈونیشیا میں اپنا سامان رکھوانے کے لیے ایک ویئر ہاؤس کرایہ پر لے لیا جہاں پر کچھ انڈونیشین بھی ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔اس دوران ایک ایجنٹ نے ان سے ویئر ہاؤس شیئر کرنے کی بات کی تو میرے شوہر نے انہیں بتایا کہ یہ ویئر ہاؤس جن کا ہے ان سے بات کریں، جس کے بعد اس ایجنٹ نے دوسرے شخص کو کرائے پر جگہ لے کر دی جس میں چائنہ کے جنریٹروں کا کاروبار شروع ہوا۔ روزینہ بیگم کے مطابق ان کے شوہر فروری 2016 میں جب واپس پاکستان آرہے تھے تو واپسی سے دو دن پہلے جیسے ہی ویئر ہاؤس میں داخل ہوئے تو کچھ دیر بعد وہاں پولیس کا چھاپہ پڑا اور تلاشی کے دوران جنریٹر سے منشیات برآمد ہوئی جس میں میرے شوہر، کلیئرنگ ایجنٹ اور ویئر ہاؤس کے مالک کو گرفتار کر لیا گیا،چند مہینوں کی تفتیش کے بعد میرے شوہر کو سزائے موت سنا دی گئی، کلیئرنگ ایجنٹ بھی کچھ عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد باہر آ گئے جبکہ ویئر ہاؤس کا مالک تاحال جیل میں ہے۔انہوں نے بتایا کہ انڈونیشین ایجنٹ کے مطابق جنریٹر کنسائنمنٹ کا محمد ریاض سے کوئی تعلق نہیں،اتنی بڑی گواہی کے باوجود بھی ان کے شوہر کو قید رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم میں اب اتنی سکت نہیں کہ وہ کسی کے در جا کر انہیں اپنی یہ فریاد سنائیں،انصاف کا ایسا کوئی دروازہ نہیں جو ہم نے نہ کھٹکھٹایا ہو لیکن کہیں سے بھی ہمیں کوئی اچھی خبر نہیں ملی۔روزینہ بیگم کے مطابق اس کیس میں اب تک ہم 2 کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں، زیادہ تر پیسے انڈونیشیا میں وکیلوں کو دئیے گئے ہیں لیکن افسوس انڈونیشین وکیلوں نے ہم سے صرف پیسے بٹورے ہیں۔روزینہ بیگم نے میڈیا کو بتایا کہ گزشتہ 10 سالوں سے ان کا اپنے شوہر سے کوئی رابطہ نہیں،اس سلسلے میں انہوں نے انڈونیشیا میں قائم پاکستانی ایمبیسی اور پاکستان کے اعلیٰ حکام سے بھی رابطہ کیا لیکن ہمیں صرف تسلیاں دی جا رہی ہیں،کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ روزینہ بیگم نے مرکزی و صوبائی حکومت اور خصوصاً وزیر خارجہ سے اپیل کی کہ وہ اس اہم مسئلے پر انڈونیشین حکومت سے بات کر کے شوہر کی رہائی میں اپنا کردار ادا کریں اور قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے انہیں پاکستان لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ محمد ریاض پاکستان کا نام روشن کرنے والے مشہور ایکسپورٹر ہیں جنہیں پاکستانی ایجنٹوں نے انڈونیشیا میں منشیات کیس میں پھنسایا۔

![]()