جی ایچ کیو راولپنڈی میں یوم شہدا کی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔طحٰہ کے بارے میں پیکج چلانے کے بعد انہوں نے طحٰہ کی بیوہ کو سٹیج پہ بلایا۔
اسلامُ علیکُم!۔آج میں آپ لوگوں کو یہاں طحٰہ کی خوبیاں بتانے نہیں آئی۔ میں کچھ اور کہنے آئی ہو” ۔ڈائس پہ لگے مائیک کو اپنی طرف کرتے ہوئے وہ بولی۔
‘میری یہ خواہش تھی کہ میری شادی فوجی سے ہو۔ اور اللہ پاک نے میری یہ خواہش پوری کی۔ لیکن میں نادان یہ نہیں جانتی تھی۔ کہ جس طرح فوجی کی زندگی مشکل ہوتی ہے۔ اسطرح اسکے گھر والوں کی بھی مشکل ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کا شکر کہ طحٰہ کی شہادت سے پہلے میں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا۔ اگر میں پہلے والی مائدہ ہوتی تو شاید آپ لوگوں کے سامنے ایسے کھڑی نہ ہوتی۔ لیکن میں اب مضبوط ہوں” ۔آنکھوں میں آنسو لیے وہ سامنے موجود لوگوں کو دیکھتے ہوئے بولی۔
‘میرا اور طحٰہ کا جو لاسٹ جھگڑا ہوا تھا۔ وہ میرے ملک کے آستینوں کے سانپوں کی وجہ سے تھا۔
جب میں نے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ فوج تو ایسی ہے ویسی ہے۔ پیسے کے لیئے لڑتی ہے۔
میں نے طحٰہ سے کہا کہ آپ واپس آجائیں۔ آپ ایسے لوگوں کےلیئے جان ہتھیلی پہ رکھ کے پھر رہے ہیں۔
تو طحٰہ نے ایک بات بولی تھی۔
وہ بولے کہ میں چند برے لوگوں کی وجہ سے اپنے مذہب اور ملک کے لیئے جو کر رہا ہوں۔ وہ نہیں چھوڑ سکتا۔ اگر چند لوگ برے ہیں تو باقی لوگ تو اچھے ہیں نا۔ اور جس طرح اولاد جیسی بھی ہو ۔والدین بددعا نہیں دیتے۔ اسی طرح یہ لوگ جیسے بھی ہیں۔ میں اپنے ملک سے کیا ہوا وعدہ نہیں تھوڑ سکتا۔ میں انکی حفاظت نہیں چھوڑ سکتا”۔آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو ہتھیلی سے صاف کرتے ہوئے وہ بولی۔
‘میں یہاں یہ کہنے آئی ہو۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ فوجی ہمارے ملازم ہے۔ انکو پیسہ دیا جاتا ہے۔ کونسا مفت میں لڑتے ہیں۔ یا پھر پیسے کے لیئے لڑتے ہیں۔
فوجی کہاں سے آپ کے ملازم ہوگئے؟۔ آپ کے باپ کے نوکر ہیں؟ ۔محافظ ہیں وہ آپ کے۔ وہ نہ ہو تو آپ جیسے لوگ بھی سکون سے زندگی نہ گزار سکیں۔
اور کونسے قارون کے خزانے خرچ کر رہے ہیں ان "ملازموں "پر کہ سرحدوں کے ساتھ ساتھ آپ کے اندرون ملک کے معلاملات بھی نمٹاتے ہیں۔ سیلاب سے لے کر زلزلہ تک وہاں سے آگ بھجانے سے لے کر کسی سیاحی مقام میں پھنسی لفٹ میں لوگوں کی مدد کرنے کون آتا ہے؟ ۔
یہ ہی لوگ آتے ہیں ۔جن کو آپ کہتے ہو کہ یہ ملازم ہیں یا پیسے کے لیئے لڑتے ہیں” ۔وہ گونجتی ہوئی آواز میں بول رہی تھی۔
‘چلیں میں آپکو ایک لاکھ دیتی ہوں۔ مجھے صرف ایک رات بارڈر پہ گزار کے دکھا دیں۔ میں اپنا گھر تک بیچنے کو تیار ہوں۔ میری بیٹی کا باپ واپس لا دیں” ۔وہ ایک سیکنڈ کے لیئے رکی۔
روح کانپ جاتی ہے نا ایک رات بارڈر پہ گزارنے کے خیال سے۔ اور کونسا خزانہ ملتا ہے فوجیوں کو ۔کیا کوئی چند ہزار کے لیئے اپنی زندگی داؤ پہ لگاتا ہے ۔ اور کوئی روپیہ پیسا اپنی جوانی اور اپنے گھر والوں سے بڑھ کر ہوسکتا ہے بھلا۔ نہیں ہوسکتا۔ یہ لوگ جو لڑتے ہیں نا باڈر پہ۔ آپکی حفاظت کرتے ہیں نا۔ یہ اسلیئے کرتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب اپنی دھرتی سے پیار کرتے۔ یہ وطن کی محبت ہی ہے۔ جو انہیں سخت گرمی ہو یا سردی ۔اپنے فرض سے غافل نہیں کرسکتی۔ انکی رگوں میں لہو نہیں وطن کی محبت ہے۔ یہ ہمارے ملازم نہیں۔ بلکہ ہم تو ان کے احسان مند ہیں۔ یہ نہ ہو تو ہم سکون سے ایک رات نہیں سوسکتے۔
جو بکواس کرتے ہیں نا فوج کے بارے میں ۔میں ایسے لوگوں سے کہنا چاہتی ہو کہ خدارا آپ اگر پاک آرمی کے بارے میں اچھا نہیں بول سکتے تو اپنی زبانوں کو خاموش کروا دیں۔ اور اگر آپکی زبانیں عادی ہوگئ ہیں۔ بکواس کرنے کی۔ تو کاٹ دیں براہ مہربانی انکو۔ میں اس چیز کے پیسے دے دوں گی۔ جیسا کے آپ کو لگتا ہے کہ فوجی کے لیئے پیسہ ہی اہم ہے” ۔اپنی بات مکمل کر کے سر کو خم دیتی سٹیج سے نیچے اتر آئی۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا
#SaluteForPakArmy

![]()