پاک افغان سرحد کی مسلسل بندش نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دونوں ممالک کے عوام کو شدید معاشی، سماجی اور کاروباری مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ مسئلہ محض ایک سیاسی یا انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ زندگی کی بنیادی ضروریات سے جڑے لاکھوں افراد کے لیے ایسا بحران ہے جس نے ان کا روزگار، ان کی محنت اور ان کے مستقبل کو براہِ راست خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پاکستانی کسانوں اور تاجروں کا 120 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ بندش صرف ایک جغرافیائی لکیر کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی درد سے جڑا ہوا بڑا سانحہ ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اختلافات، سفارتی تنازعات اور امن و امان کے مسائل کے باوجود تجارت کو بند کرنے جیسے فیصلے کم ہی کیے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے ہمیشہ یہی حکمتِ عملی اپنائی کہ اختلافات اپنی جگہ لیکن تجارت کو جاری رہنا چاہیے، کیونکہ تجارت وہ واحد ذریعہ ہے جو دشمنوں کے درمیان بھی رابطے اور مفاد کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے خطے میں اس سچائی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان روایتی تجارت نہ صرف معیشت کو سہاراہ فراہم کرتی ہے بلکہ دونوں ملکوں کی روزمرہ ضروریات کا ایک بڑا حصہ اسی باہمی کاروبار پر منحصر ہے۔ اس تجارت کا رک جانا دو قوموں کے لاکھوں خاندانوں کے معمولات زندگی کو اس شدت سے متاثر کرتا ہے کہ اس کا ازالہ کبھی مکمل طور پر ممکن نہیں رہتا۔ تجارت کی بندش نے دونوں ممالک کے علاقوں میں معاشی بے چینی اور غیریقینی کیفیت کو جنم دیا ہے۔

کراچی پورٹ پر آنے والے افغان تاجروں کے بیرونی کنٹینرز کو تو اکثر مختلف سہولتیں ملتی رہی ہیں، مگر جب بات دونوں ممالک کی اپنی زرعی اور صنعتی تجارت کی آتی ہے تو اسے سب سے پہلے قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا، افغان درآمدی کنٹینرز کے سفر میں تو بڑی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی مگر وہ تجارت پوری طرح رک گئی جو دونوں ملکوں کے کسانوں، چھوٹے تاجروں اور مزدوروں کا واحد ذریعہ معاش تھی۔

زرعی پیداوار دونوں ملکوں کی معیشت کا ریڑھ کی ہڈی ہے۔ افغانستان کے کسانوں کی فصلیں بھی اسی تجارت کی بدولت پاکستان کی مارکیٹ تک پہنچتی ہیں اور پاکستان کے کسانوں کی محنت بھی سرحد عبور کر کے افغانستان میں اپنی قدر پاتی ہے۔ جب یہ راستے بند کر دیے جاتے ہیں تو کسان کی محنت، پسینہ اور امید سب ضائع ہو جاتے ہیں۔ ہر خراب ہونے والی فصل کے پیچھے ایک گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔

پاکستانی صنعتکار بھی اس بندش سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ بہت سے کارخانے افغانستان کے لیے بنائی جانے والی مصنوعات پر چلتے ہیں، جبکہ افغانستان کے کئی صنعتی یونٹ پاکستان کی خام مال کی سپلائی پر منحصر ہیں۔ سرحد بند ہونے سے پورا پروڈکشن سائیکل رک جاتا ہے، مزدوروں کی مزدوری رک جاتی ہے، اور فیکٹریاں جزوی یا مکمل طور پر بند ہونے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ یہ نقصان صرف کاروبار کا نہیں بلکہ قومی ترقی کے سفر کا نقصان ہے۔

گزشتہ پچاس دنوں میں پاکستان کی طرف لاکھوں من زرعی اجناس یا تو ضائع ہو گئیں یا کسانوں کو اپنی لاگت سے بھی کم قیمت پر فروخت کرنا پڑیں۔ یہ نقصان صرف پیسے کا نہیں بلکہ کسان کی محنت، اس کی امید اور اس کے مستقبل کی گاڑی کا پٹڑی سے اتر جانے کا نقصان ہے۔ فصلیں اگانے میں محنت درکار ہوتی ہے، اور جب یہ محنت یونہی برباد ہو جائے تو کسان کے دل میں مایوسی، بے بسی اور بے اعتمادی جنم لیتی ہے۔

ٹریڈ بند ہونے سے ٹرانسپورٹ سیکٹر بھی مکمل طور پر ٹھپ ہو چکا ہے۔ وہ ڈرائیور جو روز سرحد پار سامان لے کر جاتے تھے، وہ کنڈیکٹر جو اپنی روزانہ کی مزدوری پر گھر چلاتے تھے، اور وہ مزدور جو لوڈنگ اور ان لوڈنگ سے اپنا پیٹ پالتے تھے، سب کے سب گزشتہ کئی ہفتوں سے بے روزگار بیٹھے ہیں۔ گھروں میں فاقوں کی نوبت آئی ہوئی ہے، قرض بڑھ رہے ہیں اور غربت مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔

یہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ سرحدی تجارت کو انسانی ضرورت سمجھنے کے بجائے اسے انتظامی احکامات کی فائلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ حکومتیں اپنے فیصلوں میں عوام کی معاشی مشکلات کو ترجیح نہیں دیتیں، بلکہ سیاسی یا سیکیورٹی نقطہ نظر سے ہی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس سوچ نے عام آدمی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔

حکومت کی جانب سے اب یہ بیان سامنے آ رہا ہے کہ سرحد کو “انسانی ہمدردی” کی بنیاد پر کھولا جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب نقصان 120 ارب تک پہنچ گیا، جب کسان اپنی فصلیں جلا کر بیٹھ گئے، جب مزدوروں کے گھروں میں چولہے ٹھنڈے پڑ گئے، تب جا کر کیوں یہ احساس پیدا ہوا؟ عوام کو پہلے کیوں یاد نہیں رکھا گیا؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ کو نہ عوام کے دکھ کا احساس ہے اور نہ ہی انہیں اس بات کی فکر ہے کہ ایک سرحد بند کرنے کے فیصلے سے کتنے گھروں کی عورتیں، بچے اور بوڑھے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ عوام کی مشکلات کو صرف اخباری اعداد و شمار سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ اعداد و شمار انسانوں کی بکھرتی ہوئی زندگیوں کی تصویر ہوتے ہیں۔

تجارتی رابطے کسی بھی ملک کی مضبوطی میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کا جغرافیہ، ثقافت، زبان، معیشت اور تاریخ ایک دوسرے سے گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ اسی باہمی رشتے کو مضبوط بنانے کا واحد راستہ تجارت ہے، نہ کہ بندشیں اور پابندیاں۔

زرعی تجارت کی مسلسل بندش مستقبل میں دونوں ممالک کے لیے خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ اگر کسان کی محنت بار بار ضائع ہوتی رہی تو مستقبل میں پیداوار کم ہو جائے گی، مارکیٹ میں قلت بڑھے گی اور مہنگائی عام آدمی کا جینا دوبھر کر دے گی۔ یہ نقصان صرف موجودہ وقت تک محدود نہیں رہتا بلکہ آنے والے برسوں میں بھی اپنے اثرات چھوڑتا ہے۔

افغانستان کی مارکیٹ پاکستان کے لیے ایک اہم برآمدی منڈی ہے۔ اس کی بندش سے نہ صرف پاکستان کی صنعت متاثر ہوتی ہے، بلکہ ملک کے اندر بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ معیشت پہلے ہی دباؤ میں ہے، ایسے میں سرحدی تجارت کی بندش اسے مزید کمزور کرتی ہے۔

سرحد بند کر کے سیکیورٹی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ غیر قانونی راستے پیدا ہوتے ہیں جن سے اسمگلنگ، کرپشن اور بدعنوانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ بندش جرم کو کم نہیں بلکہ بڑھاتی ہے، جبکہ قانونی تجارت کو نقصان پہنچاتی ہے جو اصل میں دونوں ممالک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔

مستقبل کے لیے دونوں ممالک کو ایک ایسا مستقل تجارتی نظام تشکیل دینا ہوگا جو سیاسی حالات سے قطع نظر ضروری مصنوعات کی آمدورفت کو کبھی نہ روکنے دے۔ تجارت کا بہاؤ مستقل رہے گا تو عوام خوشحال رہیں گے اور دونوں ممالک کے تعلقات بھی بہتر ہوتے جائیں گے۔

پاکستانی تاجر اور کسان حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ گزشتہ 120 ارب کے نقصان کا ازالہ کیا جائے، مگر یہ صرف مالی مسئلہ نہیں بلکہ اعتماد کی بحالی کا معاملہ ہے۔ اگر ریاست کسان اور تاجر کو یہ تحفظ نہ دے سکے کہ ان کی پیداوار محفوظ ہے، تو ملک کے اندر معاشی عدم استحکام مزید بڑھ جائے گا۔

یہ بھی ضروری ہے کہ حکمران اپنے فیصلوں کے حقیقی اثرات کو سمجھیں۔ ایک حکم نامہ جاری کرنا آسان ہے مگر اس کے پیچھے چھپے ہوئے انسانی دکھوں کو سمجھنا مشکل ہے۔ ہماری سیاست اور حکمرانی میں اسی احساس کی کمی سب سے بڑی خرابی بن چکی ہے۔

اگر تجارت کو مستقل بنیادوں پر کھول دیا جائے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھائیں تو معیشت مضبوط ہو سکتی ہے، روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں، اور عوام کی زندگیوں میں آسانی آ سکتی ہے۔

Loading

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے