
پاکستانی مسافروں کی آف لوڈنگ ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جس نے نہ صرف عوام کو پریشان کیا ہے بلکہ ملک کی عالمی ساکھ کو بھی متاثر کیا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں فضائی سفر کیلئے سخت اصول موجود ہیں، لیکن پاکستانی مسافروں کو جس حد تک تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ ایک الگ اور توجہ طلب معاملہ ہے۔ اس تحریر میں ہم ان سات بنیادی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لیں گے جن کی بنیاد پر اکثر پاکستانی مسافروں کو آف لوڈ کیا جاتا ہے، اور یہ مسئلہ کیوں سال بہ سال بڑھتا جا رہا ہے۔
سب سے پہلی وجہ دستاویزات کی کمی یا غلطی ہے۔ اگرچہ یہ ایک عالمی اصول ہے کہ ہر مسافر کے کاغذات مکمل اور درست ہوں، لیکن پاکستان میں اکثر مسافر اپنے ویزوں، ہوٹل بکنگ، واپسی کے ٹکٹ یا بینک اسٹیٹمنٹ کے حوالے سے بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امیگریشن حکام فوراً شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ اووربُکنگ ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں اووربُکنگ ہوتی ہے، مگر پاکستان میں یہ مسئلہ خاص طور پر پاکستانی مسافروں پر ڈالا جاتا ہے۔ اگر فلائٹ اووربُک ہو جائے تو غیر ملکی مسافروں کو بٹھا دیا جاتا ہے جبکہ پاکستانی شہریوں کو “سیکیورٹی کلیئرنس”، “اضافی چیک” یا “دستاویزات کی مزید چھان بین” جیسے بہانوں پر آف لوڈ کر دیا جاتا ہے۔
تیسری اہم وجہ مسافروں کا عملے سے بدسلوکی کرنا ہے۔ بعض مسافر اپنے غصے، غلط رویے اور غیر مناسب گفتگو کی وجہ سے خود ہی اپنے سفر کو خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔ بہت سی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چند لوگ عملے کے ساتھ تلخ گفتگو کرتے ہیں، چیخ چلاتے ہیں یا قواعد ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
چوتھی وجہ پاکستان کا بدنام VIP کلچر ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں کوئی وزیر ہو یا عام شہری، سب کے لیے ایک ہی لائن اور ایک ہی اصول ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں VIP کلچر نے نہ صرف سسٹم کو خراب کیا ہے بلکہ عام مسافروں کی مشکلات بھی بڑھا دی ہیں۔ اسی کلچر نے سفر کو مشکل بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی مشہور شخصیت یا حکومتی فرد سفر کر رہا ہو تو عام شہریوں کو سیٹوں سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک مشہور واقعہ ہوا جب ایک معروف شخصیت کے پاکستان پہنچنے پر ایک فلائٹ کو اسلام آباد کے بجائے لاہور اتار کر ترجیحات تبدیل کی گئیں۔
پانچویں وجہ دہشت گردی اور ECL سے وابستہ معاملات ہیں، اور یہ مسئلہ پاکستان کیلئے ہمیشہ سے حساس رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک کو دہشت گردی نے بری طرح متاثر کیا، جس کی وجہ سے سیکیورٹی ادارے پہلے ہی غیر معمولی دباؤ کا شکار ہیں۔ جب کوئی مسافر بیرونِ ملک روانہ ہوتا ہے تو امیگریشن حکام اس کے سفر کے مقاصد، سابقہ ریکارڈ، اور کسی بھی حساس لسٹ سے ممکنہ تعلق کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا نام ECL، بلیک لسٹ، یا کسی خفیہ رپورٹ میں معمولی شبہے کے ساتھ بھی موجود ہو، تو حکام فوری طور پر اسے روک دیتے ہیں، even اگر وہ شبہ بعد میں غلط ثابت ہو جائے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں ماضی کے سیکڑوں کیسز نے اداروں پر دباؤ بڑھایا ہے، وہاں اکثر افسران “زیادہ محتاط” بن جاتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ لوگ بھی روکے جاتے ہیں جن کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ صرف علاقہ، شکل، نام یا سفر کی نوعیت کی بنیاد پر بھی شکوک پیدا کیے جاتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر عام شہری بے گناہ ہونے کے باوجود کئی گھنٹے پوچھ گچھ کی بھٹی سے گزرتے ہیں، اور بعض اوقات آف لوڈ بھی کر دیے جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف سیکیورٹی نہیں بلکہ تربیت اور نظام کی کمزوری کا بھی ہے۔ مناسب ڈیٹا شیئرنگ، جدید ٹیکنالوجی، اور شفاف لسٹوں کی کمی کے باعث اکثر فیصلے اندازے یا دباؤ کی بنیاد پر لیے جاتے ہیں، جس کا خمیازہ شریف مسافر بھگتتے ہیں۔ حقیقی خطرہ رکھنے والوں کی نشاندہی ضروری ہے، مگر غیر ضروری شک کی وجہ سے عام شہریوں کی زندگی مشکل بنا دینا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
چھٹی وجہ انسانی اسمگلنگ ہے، اور یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ پاکستان میں بعض ایجنٹس معصوم لوگوں کو بڑے خواب دکھا کر جعل سازی کے ذریعے آگے بھیجتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سیکیورٹی اداروں نے پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز کی چھان بین کو مزید سخت کر دیا ہے۔
ساتویں وجہ پروفائلنگ ہے، یعنی باہر کے ممالک میں خاص طرح کے کپڑے، زبان یا ثقافتی انداز دیکھ کر اندازہ لگا لینا کہ یہ شخص مشکوک ہو سکتا ہے۔ یہ رویہ غلط ہونے کے باوجود عالمی سطح پر موجود ہے۔
پروفائلنگ کا یہ سلسلہ پاکستان میں بڑھ چکا ہے۔ اگر کوئی شخص سفر کیلئے سندھی ٹوپی پہن لے، روایتی لباس پہن لے، یا دیہاتی انداز میں سفر کر رہا ہو تو فوراً اسے "مزید چھان بین” کی لائن میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غلط ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔
بہت سے پاکستانی نوجوان صرف روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جاتے ہیں، مگر صرف ان کی شکل، بولی یا لباس کی بنیاد پر انہیں روک لیا جاتا ہے۔ یہ ناانصافی ان کے خوابوں کو توڑ دیتی ہے۔
ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ پاکستانی سفری قوانین سے ناواقف ہوتے ہیں، جس کا فائدہ امیگریشن حکام اٹھاتے ہیں اور معمولی اعتراضات کی بنیاد پر آف لوڈنگ کر دیتے ہیں۔ مسافر چاہے چیک ان کرا چکا ہو، فلائٹ کے وقت اس کا نام لسٹ سے نکال دیا جاتا ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مخصوص ممالک کے لیے سفر کرنے والے پاکستانیوں پر غیر معمولی سوالات کیے جاتے ہیں۔ بعض کو گھنٹوں تک بٹھا کر رکھا جاتا ہے، صرف اس لیے کہ وہ نوجوان ہیں یا اکیلے سفر کر رہے ہیں۔
مسافر جب کئی ماہ تک پیسہ جوڑ کر ٹکٹ خریدتے ہیں اور ایئرپورٹ پر آف لوڈ کر دیے جاتے ہیں تو یہ صرف ایک سفری رکاوٹ نہیں ہوتی، بلکہ ان کے ارادے، خواب اور مالی حالات پر بھی شدید اثر ڈالتی ہے۔
ان تمام صورتحال میں ضروری ہے کہ عوام کو صرف قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔ ریاستی سطح پر اداروں کی کمزوری، تربیت کی کمی، اور منظم قوانین کی عدم موجودگی بھی اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آف لوڈنگ کی بڑی وجہ ہے۔
قومی وقار اس وقت مجروح ہوتا ہے جب ایک پاکستانی خاندان اپنی آنکھوں میں خواب لیے بیرون ملک جاتا ہے مگر امیگریشن آفیسر اسے واپس گھر بھیج دیتا ہے۔ یہ صرف ایک انفرادی مسئلہ نہیں، بلکہ پوری قوم کی اجتماعی عزت کا معاملہ ہے۔
مسافروں کی تذلیل روکنے کیلئے ضروری ہے کہ عوام بھی اپنے سفری کاغذات مکمل رکھیں، ایجنٹوں سے بچیں اور قانونی طریقوں کو اپنائیں۔ دوسری طرف ریاست کو بھی چاہیے کہ غیر ضروری پروفائلنگ اور امتیازی سلوک کے خلاف سخت قوانین بنائے۔
اگر ہم بطور قوم یہ اصول اپنائیں کہ نہ کسی کے ساتھ زیادتی ہو اور نہ کسی کو بلاوجہ حقیر سمجھا جائے تو سفر، تجارت، سماج اور عالمی ساکھ سب بہتر ہو جائیں گے۔
پاکستانی مسافروں کو عزت دینا آج کا نہیں بلکہ برسوں سے نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے۔
اگر ادارے، حکومت اور عوام مل کر اس مسئلے پر کام کریں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستانی مسافروں کو بھی دنیا بھر میں وہی عزت اور سہولت ملے گی جو دیگر قوموں کو حاصل ہے۔
![]()