امجد ہادی یوسفزئی

خیبرپختونخوا کے عوام طویل عرصے سے مختلف سیاسی، معاشی اور انتظامی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ امن و امان کی بگڑتی فضا، معاشی عدم استحکام، صحت و تعلیم کی زبوں حالی اور حکومتی اداروں کی مسلسل ناکامی نے عوام کو شدید بے بسی کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جس نے دہائیوں تک دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں، مگر آج بھی یہاں کے لوگ بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے ہیں۔

حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ بیوروکریسی سیاسی مداخلت اور فیصلہ سازی کی کمزوری کا شکار ہے، جس کے باعث منصوبے یا تو بنتے ہی نہیں یا ادھورے رہ جاتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ سیکیورٹی اداروں میں وہ ہم آہنگی اور مربوط حکمتِ عملی موجود نہیں جو حالات کا تقاضا ہے۔

صوبے میں بلدیاتی حکومتوں کی غیر موجودگی نے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ عوام سے براہِ راست جڑے مسائل—صفائی، پانی، سڑکیں، نالیاں، روشنی، اور چھوٹے ترقیاتی منصوبے—سب کے سب بغیر کسی ذمہ دار کے رہ گئے ہیں۔ مقامی حکومتوں کا نہ ہونا دراصل عوام کے ہاتھ سے ان کی آواز چھین لینے کے مترادف ہے۔

صحت اور تعلیم کی صورتحال بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات اور اسٹاف کی کمی، سکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری اور ٹوٹی پھوٹی عمارتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انسانی ترقی اس حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ دوسری طرف مہنگائی، بے روزگاری اور کمزور معاشی سرگرمیوں نے عام آدمی کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ نوجوانوں کے پاس نہ روزگار ہے نہ مواقع، نتیجتاً ہجرت ہی انہیں واحد حل محسوس ہوتی ہے۔

ان مسائل کا مداوا بھی ممکن ہے، بشرطیکہ حکومت سنجیدگی دکھائے۔ سب سے پہلے مقامی حکومتوں کو مکمل اختیارات کے ساتھ بحال کرنا ہوگا تاکہ عوامی مسائل براہِ راست حل ہوسکیں۔ امن و امان کے لیے پولیس کی جدید تربیت، بہتر انٹیلی جنس شیئرنگ اور سیاسی اثراندازی کا خاتمہ ضروری ہے۔ صحت و تعلیم کے شعبوں میں ایمرجنسی بنیادوں پر بھرتیاں، عمارتوں کی مرمت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ناگزیر ہو چکی ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کے لیے کاروباری معاونت، ہنرمندی کے مراکز اور صنعت سازی کے لیے آسان پالیسیاں صوبے کی معیشت کو سنبھال سکتی ہیں۔

آخر میں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ خیبرپختونخوا کے عوام مزید تجربات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہیں صرف وعدے نہیں، عملی اقدامات چاہئیں۔ اگر حکومتی ادارے اپنا کردار مؤثر اور شفاف انداز میں ادا کریں تو یہی صوبہ ترقی، امن اور خوشحالی کی مثال بن سکتا ہے۔ لیکن اگر غفلت کا یہی سلسلہ جاری رہا تو محرومی کا یہ دائرہ مزید وسیع ہوتا چلا جائے گا

Loading

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے