کبھی کسی ہسپتال کی رات دیکھی ہے؟ وہ رات جب مریض نیم جاں پڑا ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ ایک تیماردار تھکن سے چور، چپ چاپ اس کی سانسوں کی گنتی کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں نیند نہیں، بلکہ فکر، تھکن، اور بے بسی کا سایہ ہوتا ہے۔ان راتوں میں جب ساری دنیا سکون سے سو رہی ہوتی ہے، ہسپتالوں کے ان وارڈز میں کچھ آنکھیں جاگ رہی ہوتی ہیں، جو اپنے پیاروں کی خدمت میں مصروف ہوتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دن رات کے فرق کو بھول چکے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے صرف ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے، مریض کی زندگی۔

لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ایسے تیمارداروں کو آرام کی جگہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔ یخ زمین، تنگ وارڈ، اور سخت کرسیاں ان کا سہارا بن جاتی ہیں۔ وہ تھکن سے نڈھال ہوکر زمین پر ڈھیر ہوجاتے ہیں، مگر دل مطمئن نہیں ہوتا، کیونکہ مریض کی ذرا سی حرکت پر وہ فوراً جاگ اٹھتے ہیں۔پھر رات کا وہ پہر آتا ہے، جب صفائی کرنے والے آ جاتے ہیں۔ زمین گیلی کی جاتی ہے، جھاڑو پھیرے جاتے ہیں، اور ان بے آرام تیمارداروں کو جاگنا پڑتا ہے۔ وہ سہمے ہوئے کسی کونے میں کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کہیں ان کا کمبل یا بستر گندا نہ ہو جائے۔صفائی عملہ اپنا فرض ضرور ادا کرتا ہے، مگر افسوس اس بات پر ہے کہ یہ کام رات کے اس وقت کیوں کیا جاتا ہے، جب بے بس لوگ تھوڑی سی نیند کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس وقت جب ان کے وجود تھکن سے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔

یہ منظر دل چیر دینے والا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی گود میں مریض کا ہاتھ تھامے بیٹھے ہوتے ہیں، کچھ کی آنکھوں میں آنسو خشک ہوچکے ہوتے ہیں، اور کچھ دیوار سے ٹیک لگا کر نیند اور جاگ کے درمیان لٹکے ہوتے ہیں۔پھر کوئی شور مچتا ہے، کوئی مریض کراہتا ہے، کوئی نرس دوڑتی ہے، اور تیماردار پھر سے ہوش میں آجاتا ہے۔ نیند ایک بار پھر بھاگ جاتی ہے، اور جاگنا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔یہ تیماردار دراصل خاموش مجاہد ہیں۔ نہ کسی کو ان کی قربانی نظر آتی ہے، نہ ان کی تھکن۔ وہ ہسپتال کے کمزور بلب کے نیچے، امید کی لو جلائے بیٹھے ہوتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے علاقے مینگورہ سوات جیسے بڑے ضلع میں، جہاں ہزاروں لوگ روز علاج کے لیے آتے ہیں، وہاں ایک بڑے ہسپتال میں تیمارداروں کے لیے آرام گاہ نہ ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ صرف سہولت نہیں بلکہ ایک انسانی ضرورت ہے۔منتخب نمائندوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان لوگوں کے لیے بھی کچھ انتظام ہو، جو دن رات ہسپتالوں میں اپنے مریضوں کی خدمت کرتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی پرسکون گوشہ، جہاں وہ چند لمحے سانس لے سکیں۔یہ لوگ کسی بھی نظام کا سب سے مظلوم طبقہ ہیں۔ وہ نہ ڈاکٹر ہیں، نہ مریض، مگر ان کی قربانی دونوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ وہ بے نام خادم ہیں جو ہر رات موت اور زندگی کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان کی کوئی آواز نہیں۔ کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ وہ خود کب سوئے تھے، کب کھایا تھا، کب تھوڑا سا آرام کیا تھا۔ایسے میں جب رات کے وقت صفائی کرنے والا آتا ہے اور شور مچاتا ہے، تو وہ لمحہ کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ تیماردار جاگ اٹھتا ہے، اپنی چادر سمیٹتا ہے، اور کونے میں جا کر پھر بیٹھ جاتا ہے۔ان کے چہروں پر تھکن، آنکھوں میں آنسو، اور دل میں ایک دعا ہوتی ہے، "اے اللہ، میرے پیارے کو شفا دے، میں سب سہہ لوں گا۔”

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جو شخص کسی بیمار کی تیمارداری کرتا ہے، وہ اللہ کی رحمت میں ڈوبا رہتا ہے۔”(حدیث: ترجمہ)یہی وہ حقیقت ہے جو ان جاگتی راتوں کو عبادت بناتی ہے۔ ان کے ہر لمحے کو نیکی میں بدل دیتی ہے۔ہمیں بطور معاشرہ، ان خاموش خدمت گاروں کی قدر کرنی چاہیے۔ ان کے لیے سہولتیں پیدا کرنی چاہئیں۔ ہسپتالوں میں مخصوص جگہیں ہونی چاہئیں جہاں تیماردار کچھ دیر آرام کر سکیں، وضو کر سکیں، اور دعا کر سکیں۔یہ صرف انسانیت کا تقاضا نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور دینی فریضہ بھی ہے۔ کیونکہ جو کسی کی تکلیف میں سہارا بنتا ہے، وہ اللہ کے نزدیک خاص مقام پاتا ہے۔

جب ہم ہسپتال کے ان مناظر پر غور کرتے ہیں، تو سمجھ آتی ہے کہ اصل انسانیت وہیں سانس لیتی ہے، جہاں کوئی اپنے آرام کو قربان کر کے کسی دوسرے کی زندگی کے لیے جاگتا ہے۔راتیں گزر جاتی ہیں، سحر ہو جاتی ہے، لیکن تیماردار کے چہرے پر وہی تھکن باقی رہتی ہے۔ وہ ناشتہ بھی بھول جاتا ہے، مگر مریض کی مسکراہٹ اسے نئی طاقت دے دیتی ہے۔یہ وہ محبت ہے جو کسی پیمانے میں نہیں سماتی، یہ وہ قربانی ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔اللہ کرے کہ ہمارے حکمران، ہمارے ادارے، اور ہم سب، ان لوگوں کے احساس کو سمجھیں۔ ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں، تاکہ کوئی تیماردار آئندہ یخ زمین پر نہ سوئے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دوسروں کے درد کو محسوس کرنے والا دل عطا فرمائے، اور ان بے آرام تیمارداروں کو صبر، ہمت، اور اپنے پیاروں کی صحت و شفا نصیب فرمائے۔ آمین۔

Loading

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے