چارسدہ(بیورو رپورٹ)خیبر پختونخوا میں نوجوانوں کو تباہی کی طرف لے جانے والا ایک نیا اور خطرناک رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے،ائس یا کرسٹل میتھ۔ یہ ایک مصنوعی نشہ ہے، جو بظاہر توانائی، خوشی یا فیشن کے نام پر فروخت کیا جا رہا ہے، مگر اس کا انجام ذہنی، جسمانی اور سماجی موت ہے۔
تعلیمی اداروں کے گرد زہر کی منڈیاں اسکولز اور کالجز یونیورسٹیز کے ارد گرد منشیات فروشوں کے نیٹ ورک سرگرم ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نشے کا شکار ہو رہے ہیں،جبکہ والدین اور تعلیمی ادارے خوابِ غفلت میں ہیں۔ ائس کی قیمت کم اور دستیابی اسان ہو چکی ہے، جس نے خطرے کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے،کہ یہ صرف نشہ نہیں، معاشرتی خودکشی ہے
ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات کے مطابق ائس کا نشہ دماغی خلیات کو تباہ کر دیتا ہے، نیند چھین لیتا ہے، جنسی بے راہ روی کو بڑھاتا ہے اور طویل المدت ذہنی امراض، حتی کہ خودکشی کی طرف لے جاتا ہے۔ متاثرہ افراد رفتہ رفتہ اپنے جذبات، رشتے، تعلیم اور مستقبل سے کٹ جاتے ہیں۔
نوجوان کیوں استعمال کرتے ہیں؟
کچھ نوجوان اسے طاقت بڑھانے یا ذہانت میں اضافہ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ کچھ صرف فیشن کے تحت اسے ازما لیتے ہیں۔ لاعلمی، والدین کی لاپرواہی، اور اسکول انتظامیہ کی خاموشی نے اس زہر کو مزید پھیلنے دیا ہے۔
قانون خاموش، مجرم سرگرم
منشیات کی روک تھام کے ادارے اکثر صرف رسمی کاروائیاں کرتے ہیں، جبکہ اصل نیٹ ورک بدستور متحرک ہے۔ ائس بیچنے والے اکثر کم عمر بچوں کو استعمال کرتے ہیں تاکہ گرفتاری کی صورت میں بھی سزا سے بچ سکیں۔
سوال یہ ہے؟ کب جاگیں گے؟
یہ وقت خاموشی کا نہیں۔ اگر معاشرہ اج بھی غفلت میں رہا، تو کل کا مورخ ہمارے نوجوانوں کی تباہی کو ہماری مجرمانہ خاموشی سے جوڑے گا۔ ہمیں والدین، اساتذہ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سول سوسائٹی کو متحد ہو کر اس زہر کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔




![]()